حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت تمیم بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے نصرانی تھے پھر ۹ھ؁ میں مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ بہت ہی عبادت گزار تھے ۔ ایک ہی رکعت میں قرآن مجید پڑھا کرتے تھے اورکبھی کبھی ایک ہی آیت کو رات بھر صبح تک نماز میں بار بار پڑھتے رہتے ۔ حضرت محمد بن المنکدرکا بیان ہے کہ ایک رات سوتے رہ گئے اورنماز تہجد کے لیے نہیں اٹھ سکے تو انہوں نے اپنی اس کوتاہی کا کفارہ اس طرح ادا کیا کہ مکمل ایک سال تک رات

بھر نہیں سوئے۔ پہلے مدینہ منورہ میں رہتے تھے پھر امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ملک شام میں چلے گئے اوراخیر عمر تک ملک شام ہی میں رہے۔ مسجد نبوی علی صاحبہا الصلوۃوالسلام میں سب سے پہلے انہوں نے قندیل جلائی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دجال کے جساسہ کا واقعہ ان سے سن کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو سنایا۔(1)(اکمال ،ص۵۸۸واسدالغابہ، ج۱،ص۲۱۵)

کرامت
چادر دکھا کر آگ بجھا دی

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامتوں میں سے ایک مشہور اور مستند کرامت یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں جب پہاڑ کے ایک غار سے ایک قدرتی آگ نمودار ہوئی تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنی چادر عطافرمائی، یہ چادر لے کر جب آگ کے قریب پہنچے تو آگ بجھتی ہوئی پیچھے کو ہٹتی چلی گئی یہاں تک کہ آگ غار کے اندر داخل ہوگئی اوریہ خود بھی آگ کو چادر سے دفع کرتے ہوئے غار میں گھستے چلے گئے جب یہ آگ کو بجھاکرحضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اے تمیم داری ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی دن کے لئے ہم نے تم کو چھپارکھا تھا ۔(2)(حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۷۳بحوالہ ابو نعیم)

Exit mobile version