حضرت امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت و شہادت
ابن سعد کے قول پر حضرت امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے دوسرے روز امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے دست مبارک پر مدینۂ طیَّبہ میں تمام صحابۂ علیہم الرضوان نے جو وہاں موجود تھے بیعت کی۔ 36ھ میں جنگ جمل کا واقعہ
پیش آیا اور صفر 37ھ میں جنگ صفین ہوئی جو ایک صلح پر ختم ہوئی اور حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے کوفہ کی طرف مراجعت فرمائی اور اس وقت خوارج نے سرکشی شروع کی اور لشکر جمع کرکے چڑھائی کی۔ حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے مقابلہ کے لیے بھیجا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان پر غالب آئے اور ان میں سے قوم کثیرواپس ہوئی اور ایک قوم ثابت رہی اور انہوں نے نِہْرَوان کی طرف جاکر راہزنی شروع کی۔ حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس فتنہ کی مدافعت کے لئے ان کی طرف روانہ ہوئے۔ 38ھ میں آپ نے ان کو نہروان میں قتل کیا انھیں میں ذِی الثَّدْیَہ کو بھی قتل کیا جس کے خروج کی خبر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دی تھی، خوارج میں سے ایک نامراد عبدالرحمن بن ملجم مرادی تھا۔ اس نے برک بن عبد اللہ تمیمی خار جی اور عمر وبن بکیر تمیمی خارجی کو مکہ مکرمہ میں جمع کرکے حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان اورحضرت عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قتل کا معاہدہ کیا اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے قتل کے لئے ابن ملجم آمادہ ہوا اور ایک تاریخ معین کرلی گئی۔
مستدرک میں سُدی سے منقول ہے کہ عبدالرحمن بن ملجم ایک خارجی عورت قطام نامی پر عاشق تھا۔ اس ناشاد کی شادی کا مہرتین ہزار درہم اورحضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کو قتل کرنا قرار پایا۔ چنانچہ فرزدق شاعر نے کہا ؎
فَلَمْ اَرَ مَھْرًا سَاقَہٗ ذُوْ سَمَاحَۃٍ
کَمَھْرِ قِطَامِ بَیْنَا غَیْرِ مُعْجَمٖ
ثَلَاثَۃُ اٰلَافٍ وَّ عَبْدٌ وَّ قِیْنِۃٌ
وَ ضَرْبُ عَلِیٍّ بِالْحُسَامِ الْمُصَمَّمٖ
فَلَا مَھْرَ اَعْلٰی مِنْ عَلِیٍّ وَّاِنْ عَلَا
وَلَافِتْکَ اِلَّا دُوْنَ فِتْکِ ابْنِ مُلْجَمٖ
اب ابن ملجم کوفہ پہنچا اوروہاں کے خوارج سے ملا اور انہیں درپردہ اپنے ناپاک ارادہ کی اطلاع دی، خوارج اس کے ساتھ متفق ہوئے۔
شب جمعہ 17رمضان المبارک 40ھ کو امیر المومنین حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سحر کے وقت بیدار ہوئے، اس رمضان میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کایہ دستو ر تھا کہ ایک شب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس، ایک شب حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس، ایک شب حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس افطار فرماتے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہ فرماتے تھے کہ مجھے یہ اچھا معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے وقت میرا پیٹ خالی ہو۔
آج کی شب تو یہ حالت رہی کہ باربار مکان سے باہر تشریف لائے اور آسمان کی طرف نظر فرماتے اور فرماتے کہ بخدا !مجھے کوئی خبر جھوٹی نہیں دی گئی یہ وہی رات ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے۔
صبح کو جب بیدار ہوئے تو اپنے فرزند ارجمند امیر المومنین امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:آج شب میں نے حبیب اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور عرض کیا :یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے آرام نہ پایا۔فرمایا :انہیں بددعاکرو۔میں نے دعاکی کہ یارب! عزوجل مجھے ان کے عوض ان سے بہتر عطا فرما اور انہیں میری جگہ ان کے حق میں برا دے۔(1)
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ، فصل فی مبایعۃ علی رضی
اﷲ تعالٰی عنہ…الخ، ص۱۳۸۔۱۴۰ملخصاً
و الصواعق المحرقۃ، الباب التاسع، الفصل الخامس، ص۱۳۳۔۱۳۵ملتقطاً