حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدینۂ طَیَّبہ سے رِحْلَت
مدینہ سے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رحلت کا دن اہلِ مدینہ اور خود حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے کیسے رنج و اَنْدُوْہ کا دن تھا۔ اطراف عالم سے تو مسلمان وطن ترک کرکے اَعِزَّہ و احباب کو چھوڑ کر مدینہ طیبہ حاضر ہونے کی تمنائیں کریں، دربار رسالت کی حاضری کا شوق دشوار گزار منزلیں اوربروبحرکاطویل اورخوفناک سفر اختیار کرنے کے لئے بیقرار بنادے، ایک ایک لمحہ کی جدائی انھیں شاق ہو،اور فرزند ِرسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ) جَو ارِرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے رحلت کرنے پر مجبور ہو۔ اس وقت کا تصور دل کوپاش پاش کردیتاہے جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارادۂ رخصت آستانۂ قدسیہ پر حاضر ہوئے ہوں گے اور دیدۂ خونبار نے اشکِ
غم کی بارش کی ہوگی دلِ دردمند غمِ مَہْجُوری سے گھائل ہوگا، جَدِّ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضۂ طاہرہ سے جدائی کا صدمہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل پر رنج وغم کے پہاڑ توڑ رہا ہوگا، اہل مدینہ کی مصیبت کا بھی کیااندازہ ہوسکتا ہے۔ دیدارِ حبیب کے فدائی اس فرزند کی زیارت سے اپنے قلب مجروح کو تسکین دیتے تھے۔ ان کادیدار ان کے دل کا قرار تھا، آہ ! آج یہ قرارِ دل مدینہ طیبہ سے رخصت ہورہا ہے۔ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ طیبہ سے بہزار غم و اَندوہ بادِلِ ناشاد رحلت فرماکر مکہ مکرمہ اقامت فرمائی۔