حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

انصار میں قبیلہ خزرج سے ان کاخاندانی تعلق ہے ۔ یہ دربارنبوت میں وحی کے کاتب تھے اوریہ ان چھ صحابیوں میں سے ہیں جو عہد نبوی میں پورے حافظ قرآن ہوچکے تھے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی میں فتوے بھی دینے لگے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کو سید القراء (سب قاریوں کا سردار)کہتے تھے ۔ حضور انور صلی اللہ

تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کی کنیت ابوالمنذر رکھی تھی اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو ابو الطفیل کی کنیت سے پکاراکرتے تھے ۔ دربار نبوت سے ان کو سید الانصار (انصار کا سردار)کا خطاب ملا تھا اورحضرت امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو سید المسلمین کا لقب عطا فرمایا تھا ۔ ان کے شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہے ۔(1)
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ایک دن ان سے ارشادفرمایا کہ اے ابی بن کعب !اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے سورۂ لَمْ یَکُنْ پڑھ کر تمہیں سناؤں تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کیا خدانے میرا نام لے کر آپ سے فرمایا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ہاں! یہ سن کر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روتے ہوئے یہ کہنے لگے : ذُکِرْتُ عِنْدَ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (یعنی اللہ تعالیٰ کے دربار میں میرا ذکر کیا گیا۔) (2)

(اکمال،ص۵۸۶وکنزالعمال،ج۱۵،ص۲۳۸وبخاری شریف)

کرامات
حضرت جبریل علیہ السلام کی آوازسنی

ان کی ایک مشہور کرامت یہ ہے کہ انہوں نے حضرت جبریل علیہ السلام کی آوازسنی ، اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں ضرورمسجد میں داخل ہوکر نماز پڑھوں گا اوراللہ تعالیٰ

کی ایسی تعریف کروں گا کہ کسی نے بھی ایسی نہیں کی ہوگی چنانچہ وہ نماز کے بعد جب خدا کی حمدوثناء کے لئے بیٹھے تو انہوں نے ایک بلند آواز اپنے پیچھے سنی کہ کوئی کہہ رہا ہے : اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلُّہٗ وَلَکَ الْمُلْکُ کُلُّہٗ وَبِیَدِکَ الْخَیْرُ کُلُّہٗ وَاِلَیْکَ یَرْجِعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ عَلَانِیَتُہٗ وَسِرُّہٗ لَکَ الْحَمْدُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اِغْفِرْ لِیْ مَا مَضٰی مِنْ ذُنُوْبِیْ وَ اعْصِمْنِیْ فِیْمَا بَقِیَ مِنْ عُمْرِیْ وَارْزُقْنِیْ اَعْمَالًا زَاکیۃً ترضٰی بِہَا عَنِّیْ وَتُبْ عَلَیَّ. (اے اللہ ! عزوجل تیرے ہی لئے تعریف ہے کل کی کل اور تیرے ہی لئے بادشاہی ہے تمام کی تمام اورتیرے ہی لئے بھلائی ہے سب کی سب اورتیری ہی طرف تمام معاملات لوٹتے ہیں ۔ ظاہری بھی اورباطنی بھی ۔ تیرے ہی لئے تعریف ہے یقیناتوہر چیز پر قدرت والا ہے ۔ میرے ان گناہوں کو بخش دے جو ہوچکے اورمیری عمر کے باقی حصہ میں تو مجھے اچھے اعمال کی توفیق دے اورتو ان اعمال کے ذریعے مجھ سے راضی ہوجااورمیری توبہ قبول فرمالے ۔)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد سے نکل کر رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اورماجرا سنایا ۔ آپ نے فرمایا :تمہارے پیچھے بلند آواز سے دعا پڑھنے والے حضرت جبریل علیہ السلام تھے۔(1) (کتاب الذکرلابن ابی الدنیا)

بدلی کا رُخ پھیر دیا

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک قافلہ کے ساتھ مکہ مکرمہ جارہے تھے اورمیں اورحضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں اس قافلے کے پیچھے چل رہے تھے ناگہاں ایک بدلی اٹھی تو حضرت ابی بن کعب

ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یا اللہ! عزوجل ہم کو اس بدلی کی اذیت سے بچالے اور اس بدلی کا رخ پھیر دے ۔ چنانچہ بدلی کا رخ پھر گیااور ہم دونوں پر بارش کی ایک بوند بھی نہیں گری لیکن جب ہم دونوں قافلے میں پہنچے تو ہم نے یہ دیکھا کہ لوگوں کی سواریاں اور سب سامان بھیگے ہوئے ہیں ۔ ہم کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا یہ بارش جو ہم پر ہوئی ہے تم لوگوں پر نہیں ہوئی؟میں نے عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین! حضرت ابی بن کعب نے بدلی دیکھ کر خدا سے دعا مانگی کہ ہم اس بارش کی ایذارسانی سے بچ جائیں اس لئے ہم پر بالکل بارش نہیں ہوئی اوربدلی کا رخ پھرگیا۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم دونوں نے ہمارے لئے کیوں دعا نہیں مانگی؟کاش! تم ہمارے لئے بھی دعا مانگتے تاکہ ہم لوگ بھی اس بارش کی تکلیف سے محفوظ رہتے ۔ (1)
(کنزالعمال،ج۱۵،ص۲۳۲)

بخار میں سدابہار

ایک دن حضورسید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ بخار کے مریض کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ نیکیاں عطافرماتاہے ۔ یہ سن کر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ! عزوجل میں تجھ سے ایسے بخار کی دعا مانگتاہوں جو مجھے جہاد اوربیت اللہ شریف کے سفر اورمسجد کی حاضری سے نہ روکے ۔ آپ کی دعا مقبول ہوئی۔ چنانچہ آپ کے صاحبزادگان کا بیان ہے کہ میرے باپ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر وقت بخار رہتا تھا اوربدن جلتا رہتا تھا مگر اس حالت میں بھی وہ حج و
جہاد کے لئے سفر کرتے اور مسجدوں میں بھی حاضری دیتے تھے اوراس قدر جوش وخروش کے ساتھ ان کاموں کو کرتے تھے کہ کوئی محسوس بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ بخار کے مریض ہیں۔(1)(کنزالعمال،ج۱۵،ص۲۳۴مطبوعہ حیدرآباد)

Exit mobile version