جیسی غذا ویسے کام
مال حرام کا وبال یہ ہے کہ جب لقمۂ حرام پیٹ میں پہنچتا ہےتو اس سے بننے والا خون انسان کو مزید برائیوں پر ابھارتا ہے ۔یوں وہ برائیوں کےدلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور اپنی عاقبت برباد کربیٹھتاہے۔چنانچہ شیخ اکبر امام محی الدین ابن عربی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:کھایا جانے ولا ہر لقمہ اپنے ہی جیسے افعال کا سبب بنتا ہے
یعنی اگر وہ لقمہ حرام کا ہوگا تو حرام کاموں کا سبب بنے گا،مکروہ ہوگا تو مکروہ اور اگر مباح ہوگا تو مباح کاموں کا سبب بنے گااور اسی طرح اگر کھانابابرکت ہوگا تو اچھے کاموں کاسبب بنےگا اور بندے کےافعال میں برکت اور زیادتی کا باعث ہوگا۔(1)
لقمۂ حرام قبولیتِ دُعا میں رکاوٹ
لقمۂ حرام کا ایک وبال یہ بھی ہے کہ یہ دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہےجیساکہ حضرت سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ايک شخص کا ذکر کيا جو طويل سفر کرتاہے،جس کے بال پریشان اوربدن غبار آلود ہےاور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر يا ربّ! يا ربّ! کہتاہے حالانکہ اس کا کھانا حرام ہو، پینا حرام ، لباس حرام، اورغذا حرام،پھر اس کی دعاکیسے قبول ہو گی۔(2)
لقمۂ حرام قبولیتِ اعمال میں رکاوٹ
جس طرح لقمۂ حرام کی نحوست سے دُعاؤں کی قبولیت رک جاتی ہے اسی طرح نیک اعمال بھی قبولیت کی منزل تک نہیں پہنچ پاتےجیساکہ مَحبوبِ ربُّ العالمین، جنابِ صادق وامین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے سعد (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ )!اپنی غذا پاک کر لو! مستجابُ الدعوات ہو جاؤ گے، اُس ذاتِ پاک کی قسم جس
کے قبضۂ قدرت ميں محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم)کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پيٹ ميں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہيں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زيادہ بہترہے۔(1)
بیان کردہ روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مالِ حرام ہلاکت ہی ہلاکت ہےلہٰذا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ دنیا وآخرت کی بربادی سے بچنےکے لئے سود اور مالِ حرام سے کنارہ کشی اختیار کرلے خواہ اس کے بدلے اسے کتنا ہی بڑا دنیوی خسارہ کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔مگر افسوس!فی زمانہ جبکہ معاشرے میں رشوت ، سُود، دھوکا اور بد دیانتی وغیرہ عام ہوچکی ہے اوپر سے نیچے تک تقریباً سارا نظام تہس نہس ہوچکا ہے، اگردین کا درد رکھنے والا کوئی اسلامی بھائی سمجھانے کی کوشش بھی کرے تو اس قسم کی باتیں سُننے کو ملتی ہیں:’’بھئی کیا کریں مجبوری ہے،ہم تو بے بس ہیں ،اس کے بغیر چارہ ہی نہیں،سب چلتا ہے،ہم اکیلے کر بھی کیا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ‘‘ حالانکہ یہ باتیں درست نہیں،کیونکہ نہ تو ہم بے بس و مجبور ہیں اور نہ ایساہے کہ ان حرام کاریوں کے بغیر چارہ نہیں اور جہاں تک اس بات کا تعلّق ہےکہ ہم اکیلے کیا کر سکتے ہیں تو جناب کم از کم اپنی ہی اصلاح کی کوشش کرلیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ پورا نظام خود بخود ٹھیک ہوجائےگا۔دراصل ہم چاہتے ہیں کہ دوا بھی نہ کھائیں اور مرض سے شفا بھی مل جائے ،مانا کہ معاشی خوشحالی کے لئے پورے مُعاشرے کو سُود اور دیگر
بُرائیوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے مگر یاد رکھیں!معاشرہ افراد سے بنتا ہے، جب تک افراد اپنی اصلاح کی کوشش نہیں کریں گے سارے معاشرے کی اصلاح مشکل ہے۔لہٰذا ہر شخص انفرادی طور پر اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے معاشرے میں خود بخود تبدیلی آجائے گی اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول بھی ہے۔شیخِ طریقت،امیر ِاہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں ملک و بیرونِ ملک کئی مقامات پر حیرت انگیز اصلاحی انقلاب رونما ہوچکا ہے۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنے مُریدین و محبین کو اوّلاً اپنی ذات کی اور ثانیاًدوسروں کی اصلاح کا ذہن دیتے ہوئے یہ مدنی مقصد عطا فرمایا کہ ’’مجھے اپنی اور ساری دُنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے‘‘یہی وجہ ہے کہ دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہونے والا ہر اسلامی بھائی مُعاشرے کے بجائے سب سے پہلے اپنی اصلاح کی کوشش کرتاہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس مدنی ماحول کی برکت سے مُعاشرے کے بدترین لوگوں کا شمار بہترین لوگوں میں ہونے لگا،جُھوٹ، غیبت، چُغلی ،وعدہ خلافی،گالی گلوچ،قتل و غارت گری،رشوت خوری،طرح طرح کے ناجائز کاروبار اور ان کے علاوہ سینکڑوں معاشرتی برائیوں میں مبتلا افراد توبہ تائب ہوگئے۔
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1… تفسیر ابن عربی،پ۳، البقرة، تحت الآیة:٢٧٦ ،۱/۱۱۴
2… مسندامام احمد ، مسند ابی ھریرہ ،۳ /۲۲۰،حدیث:۸۳۵۶