الجِنَّتہ

الجِنَّتہ

’’جنّ ‘‘ کاوجود ہر ملت و مذہب میں ثابت ہے ۔چنانچہ دائرۃ المعارف میں معلم بطر س بستانی نے لکھا ہے کہ :جتنے مذاہب انبیاء کی تصدیق کر تے ہیں وہ سب جن کے وجود کو مانتے ہیں ، اور قدمائے فلاسفہ اور اصحاب رو حانیات بھی ان کے وجود کے قائل ہیں ۔ ان کی پیدائش کی نسبت حق تعالیٰ فرماتا ہے والجان خلقنا ہ من قبل من نا ر السموم یعنی جن کو ہم نے انسان سے پہلے سموم کی آگ سے پیدا کیا۔سموم اس گرم ہوا کوکہتے ہیں جو آدمی کے جسم میں سرایت کر تی ہے ۔تفسیر کبیر میںلکھا ہے کہ سموم میں آگ ہو تی ہے ،اس کو سموم کہنے کی یہ وجہ ہے بسبب کمال لطافت کے آدمی کے مسامات میں گھستی ہے ۔اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کاقول نقل کیا ہے کہ یہ سموم جو بہا کر تی ہے وہ ستر حصو ں میں سے ایک حصہ اُس سموم کا ہے جس میں جن پیدا ہوئے ہیں ۔الحاصل سموم میں جو آگ پوشیدہ ہو تی ہے اس سے حق تعالیٰ نے جن کو بنایا ۔
توضیح اس کی اس طرح کی جاسکتی ہے کہ خاص آگ جہاں مشتعل ہوتی ہے وہاں ایک خاص حد تک آگ محسوس ہوتی ہے جس کو زبانہ ء آتش کہتے ہیں ،اور اس میں جلانے کی صفت بھی محسوس ہو تی ہے ،کپڑا وغیرہ اس پر رکھا جائے تو جل کر خاک سیاہ ہوجا تا ہے۔ اس حد کے بعد اس آگ کا استحالہ ہوا کی طرف ہو جا تا ہے یعنی وہ ہوا بن
جا تی ہے ، مگر ایک حد تک اس ہوامیں گرمی ضروررہتی ہے ،اسی حد میں جس قدر گرمی محسوس ہے وہ آگ کی گرمی ہے ،یہی گرم ہوا جب بہہ کر آدمی کے مسامات میں گھس جاتی ہے توہلاک کر دیتی ہے ،یہ مہلک گرمی آگ کی ہے ،کیونکہ جو حرارت کیفیتِ ہوا ہے وہ مہلک نہیں بلکہ مفرح اور روح کو تازہ کرنے والی ہے ۔
اس سے ثابت ہو تا ہے کہ سموم میں آگ ہو تی ہے اور اسی آگ سے جنّ پیدا کئے گئے ،جس طرح مٹی سے انسان پیدا کئے گئے ۔ظاہر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ انسان مٹی سے کیونکر پیدا ہوا ،کیونکہ ظاہراً اس کی تخلیق اُس پانی کے اندر موجود اجزاء سے معلوم ہو تی ہے جو انسان سے خارج ہو تا ہے ،مگر چونکہ انسان کے حالات ہمیشہ ہمارے پش نظر ہیں اس لئے غور وفکر کرنے سے معلوم ہو گیا کہ دراصل انسان کی تخلیق خاک سے ہے ،جس کا حال ہم نے مقاصدالاسلام کے حصہء ہفتم میں لکھا ہے ۔
باوجود اس علم کے کیفیت تخلیق میں عقل حیران ہو تی ہے کہ مٹی کے استحالات جو ہو تے گئے وہ کیونکر ہوئے ؟ یہ بات اور ہے کہ عادت ہونے کی وجہ سے حیرانی نہیں ہوتی ، مگر خاک کا نبات ،اور نبات کا اَخلاط ،اور اَخلاط کا نطقہ اور پھر علقہ اور مضغہ بن جانا عقل کی راہ سے ہر گز سمجھ میں نہیں آسکتا کہ یہ قلب ماہیت کیونکر ہوتی گئی ؟خاک پرکس نے جبر کیا کہ اپنی صورت نوعیہ کو چھوڑ کر نباتی صورت اختیار کرے اور وہ خاصیتیں اور تاثیر ات اس میں آجائیں جو خاک میںنہ تھے ؟!اور جسم نباتی و حیوانی پر ایسی کونسی چیز مسلط ہوئی جس نے ان کی صورت نوعیہ کو دور کرکے خلطی صورت پہنا دی؟!اب اگر کہیں کہ صورت نباتی خلط میں موجود ہے تو ہدایت کے خلاف ہے ،کیونکہ اخلاط میں اس قسم کا جسم ہے نہ رنگ نہ بوہے نہ مزہ وغیرہ ،اور اگر کہیں کہ صورت نباتی فنا ہوگئی تو وہ خاصیتیں اور تاثیر ات جو اس میںنہیں تھیں کہاں سے آگئیں ؟! کیونکہ کل لوازم و آثار صورت نوعیہ سے متعلق ہیں ، مثلاً دماغ کی قوت کے لئے جو دوائیں دی جاتی ہیں جب تک وہ دماغ میں نہ جائیں تاثیر ممکن نہیں ،اور دماغ میں جانے والی اس کی غذاء بلغم وغیرہ ہے جس کی صورت نوعیہ ان ادویہ کی صور نوعیہ سے بالکل جدا اور ممتاز ہے ۔

بہر حال اس سلسلہ کے انقلابات اور استحالات کو اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو ضرور عقل حیران ہو تی ہے ،اورجب تک اس کے قائل نہ ہوں کہ خالق عالم نے جس طرح خاک کواپنی قدر ت کا ملہ سے پیدا فرمایا اسی طرح صورت نوعیہ کو دور کرکے صورت ثا نیہ اس کو دی ،علیٰ ہذا القیاس یکے بعد دیگر انقلابات ہوتے گئے ،یہاں تک کہ آخر میں صورت انسانی کی خلعت فا خرہ اس کو پہنائی گی ۔ اسی پر قیاس کرلیجئے کہ ہرچیز کی تخلیق میں ابتداء کچھ ہوتی ہے اور انتہاء کچھ ، یہ ضروری نہیں کہ جو صورت ابتدائی ہو اس کے پورے لوازم وآثار باقی رہیں ۔دیکھئے انسان خاک سے پیدا ہوا اور خاک سے سوائے جسمیت کے اس کوکوئی مشابہت نہیں ۔ اسی طرح جن نار سموم سے پیدا ہوئے اور اس سے ان کو کوئی مشا بہت نہیں ۔
ان امور پر غورنہ کرکے اقسام کے اعتراض کئے جاتے ہیں مثلاً کہا جا تا ہے کہ :نار ایک لطیف چیز ہے اگر جن اس سے پیدا ہوئے ہوں توان کی قوت سے متعلق جو حکایات مشہور ہیں اور یہ خیال کیا جا تاہے کہ آدمی سے زیادہ وزن اٹھا سکتے ہیں درست نہ ہوگا ،کیونکہ جس کی جسامت زیادہ ہوگی اس کی جسمانی قوت بھی زیادہ ہوگی ۔ یہ سب ’’قیاس الغائب علی الشاہد ‘‘ہے جو بالکل صحیح نہیں ۔ جس چیز کی تخلیق خداے تعالیٰ
فرماتا ہے وہ نرالی ہوتی ہے ۔ دیکھئے افلاک کے نسبت حکماء نے تصریح کی ہے کہ نہ وہ گرم ہیںنہ سردنہ ثقیل نہ خفیف ۔اب کہئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی چیز خفیف بھی نہ ہو اور ثقیل بھی نہ ہو!آگ ہر چیز کو جلاتی ہے مگر ابرک کو نہیں جلاسکتی سونے چاندی اور فولاد کو سیال بنا تی ہے مگر انڈے کی زردی اور سفید ی کو جو سیال ہے منجمد کر دیتی ہے !!
غرضکہ ہر ایک چیز میں حق تعالیٰ نے ایک قسم کی صلاحیت دی ہے اور اس کے لوازم و آثار مقر ر فر ما ئے ہیں جن کاصدورضروریات سے ہے ۔ اسی طرح جن کو بھی نار سموم سے پیدا کرکے ان کے لوازم و آثار مقرر کر دئیے ،مثلاً ہر شکل میںمتشکل ہونا،نظروں سے عوماً غائب رہنا اور کبھی بعض بعض لوگوں کو نظر آجا نا،تھوڑے وقت میں مسافت بعید ہ کو طے کرنا ،انسان کے جسم میں حلول کرنا وغیرہ ۔ہم نے مقاصد الاسلام کے دوسرے حصہ میں کتب حکمت جدیدہ سے جن کا وجود بفضلہ تعالیٰ ثابت کر دکھا یا ہے ۔اگر وہ تقریر دیکھ لی جائے تو اہل انصاف کو غالباً جن کے وجود میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے گا ۔

Exit mobile version