تقسیمِ اَوقات

تقسیمِ اَوقات

حضرت امام حُسَین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والدبزر گوار سے دریافت کیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جووقت اپنے دولت خانہ میں گز رتا تھا آپ اس میں کیا کیا کر تے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم گھر میں داخل ہوتے تواس میں قیام کے وقت کے تین حصے کرلیتے تھے۔ ایک حصہ اللّٰہ (کی عبادت) کے لئے، دوسرااپنے اہل (کے ساتھ موانست ومعاشرت) کے لئے، تیسرا اپنی ذاتِ اَقدس کے لئے۔ پھر اپنے ذاتی حصہ کو اپنے اور عام لوگوں کے درمیان تقسیم کر لیتے۔ خو ّاص صحابہ جو دولت خانہ میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو تے آپ ان کی وساطت سے عوام کو جو دو لت خانہ میں حاضر نہ ہوا کرتے تبلیغِ اَحکام فرماتے اور نصیحت وہدایت کی کوئی بات عام وخاص سے پو شیدہ نہ رکھتے۔حصۂ اُمت میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا طریقہ یوں تھا کہ اَہل فضل کو ترجیح دیتے تاکہ حاضر ِخدمت ہو کر اِفادۂ عام کریں اور اس حصۂ اُمت کو بقدر حاجات دینیہ تقسیم فرماتے۔اہل فضل میں سے کسی کو ایک مسئلہ دین دریافت کر نا ہوتاکسی کو دواور بعض کوبہت سے مسائل کی ضرورت ہو تی۔پس ان اصحاب حاجات کی طرف توجہ فرماتے اور ان کو وہی امور دریافت کر نے دیتے جن میں ان کی امت کی بہبود ی ہو۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کے مناسب حال احکام بیان فرماتے۔اس کے بعد آپ حاضر ین مجلس سے ارشادفرماتے کہ تمہیں چاہیے کہ بقیہ امت کو جو حاضر نہیں یہ احکام پہنچا دو، اور نیز فرماتے کہ جو لوگ (مثلاً عورتیں ، بیمار، غائب وغیرہ ) اپنی حاجتیں مجھ تک پہنچا نہیں سکتے تم ان کے حوائج مجھ پر پیش کرو کیونکہ جو شخص ایسے آدمی کی حاجت بادشاہ تک پہنچاتا ہے جسے وہ خود نہیں پہنچا سکتا اللّٰہ تعالٰی قیامت کے دن اس کے قدم (پل صراط پر ) ثابت رکھے گا اسی طرح کے ضروری مفید امور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پیش ہو اکر تے اور ایسے امور کی شنوائی نہ ہوتی جن میں کچھ فائدہ نہ ہو تا۔طالب وسائل دولت خانہ میں خدمت اقدس میں حاضر ہو تے اور آپ سے استفاد ہِ علوم کرتے اور لوگوں کے رہبر بن کر نکلتے۔
حضرت امام حُسَین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اپنے والد بزرگوار سے پو چھا کہ

آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جو وقت گھر سے خارج گزر تا تھا آپ اس میں کیا کیا کرتے تھے۔انہوں نے فرمایا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکثر خاموش رہتے اور بجز مفید وضروری امر کے لب کشائی نہ فرماتے۔ آپ لوگوں کو (حسن خُلْق سے ) اپنا گرویدہ بنا تے اور ایسی بات نہ کرتے جس سے وہ آپ سے نفرت کرنے لگیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر قوم کے بزرگ کی عزت کر تے اور اس کو ان کا سر دار بناتے۔آپ لوگوں کو (عذاب خدا سے ) ڈراتے ان سے احتراز کرتے اور بچتے مگر کشادہ روئی اور حسن خُلق میں کسی سے دریغ نہ فرماتے۔ اپنے اصحاب کی خبر گیر ی فرماتے (مثلاً مریض کی عیادت مسافر کے لئے دعا اور میت کے لئے استغفار فرماتے۔) اپنے خاص اصحاب سے لوگوں کے حالات دریافت فرماتے ( تاکہ ظالم سے مظلوم کا بد لہ لیں ) آپ اچھی بات کی تحسین فرماتے اور اس کی تائید کرتے اور بری بات کی برائی ظاہر فرماتے اوراس کی تضعیف وتردید کرتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حال ہمیشہ معتدل تھا، اس میں اختلاف نہ تھا۔آپ (لوگوں کی تذکیر و تعلیم سے ) غافل نہ ہو تے تھے کہ مبادا وہ غافل ہو جائیں یا سستی کی طرف مائل ہو جائیں ۔آپ بہرحال (جمیع انواع عبادات کے لئے ) مُسْتَعِد تھے۔حق سے کوتاہی نہ کرتے اور نہ حق سے تجاوز فرماتے، جو لوگ (استفادہ کے لئے ) آپ کی خدمت میں حاضر رہتے وہ خیر الناس ہو تے ، سب سے افضل آپ کے نزدیک وہ ہو تا جو سب مسلمانوں کا خیر خواہ ہو تا اور مرتبہ میں آپ کے نزدیک سب سے بڑا وہ ہو تا جو محتاجوں کی غم خواری کر نے والا اور (مہمات امور میں ) ( 1) اپنے بھائیوں کی مدد کر نے والا ہوتا۔
امام حُسَین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ بعد ازاں میں نے والدبزرگوار سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس کا حال دریافت کیاانہوں نے فرمایا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مجلس سے اٹھنا اور مجلس میں بیٹھنا بغیر ذکر الٰہی نہ ہوتا۔ جب آپ کسی مجلس میں رونق افروز ہوتے تو جو جگہ خالی پاتے وہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی یہی حکم دیتے جو لوگ آپ کے پاس بیٹھتے آپ ان میں سے ہر ایک کو (حسب حال کشادہ روئی اور تعلیم وتفہیم سے) بہرہ ور فرماتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہر ایک جلیس (2) یہ سمجھتا کہ آپ کے نزدیک مجھ سے زیادہ کوئی بزرگ نہیں ۔ جو شخص آپ کے پاس بیٹھتا یا کسی حاجت کے لئے آپ سے کلام کر تا۔ آپ اس کے ساتھ اسی حالت میں
ٹھہرے رہتے یہاں تک کہ وہ خود واپس ہوجاتا۔جو شخص آپ سے کسی حاجت کا سوال کرتاآپ اس کی حاجت کو پورا کرتے یا اس سے کوئی نرم بات فرماتے۔ (یعنی وعدہ فرماتے یا فرماتے کہ فلاں سے ہمارے ذمہ قرض لے لو ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی کشادہ روئی اور حسن خلق تمام لوگوں کے لئے عام تھا۔آپ (بلحاظ شفقت) سب کے باپ ہو گئے تھے اور وہ آپ کے نزدیک حق میں برابر تھے ( حسب حال واستحقاق ہر ایک کی حق رسانی ہو تی ) آپ کی مجلس حلم و حیاء وامانت وصبر کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ اس میں آواز یں بلند نہ ہوا کر تیں اور نہ اس میں کسی کی آبر وریزی ہوتی اور نہ اشاعت ہفوات ہوتی۔ (1 ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں سب مُتَسَاوی تھے ہاں بلحاظِ تقویٰ بعض کو بعض پر فضیلت تھی۔ وہ سب متواضع تھیجو مجلس مبارک میں بڑوں کی تو قیر چھوٹوں پر رحم کر تے اور صاحب حاجت (2 ) کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے اور مسافر واجنبی کے حق کی رعایت کرتے۔ ( 3)

________________________________
1 – اہم اُمور میں ۔
2 – آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت سے فیض یاب ہونے والا۔

________________________________
1 – بُری باتوں کی اشاعت
2 – ضرورت مند۔
3 – شمائل ترمذی، باب ماجاء فی تواضع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔ (الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی تواضع رسول اللّٰہ،الحدیث:۳۱۹،ص۱۹۱۔۱۹۳۔علمیہ)

Exit mobile version