تحویل ِقبلہ :
نماز اسلام کا ایک رکن ہے اور نماز کی روح خشوع ہے، خشوع کے لئے باطنی یکجہتی کے ساتھ ظاہری یکجہتی بھی درکار ہے کیونکہ ظاہر کا اثر باطن پر ضرور پڑ تا ہے اور مقصودِ اصلی کو تقویت پہنچتی ہے۔ نمازِ جماعت وجمعہ میں اتحادِ جہت کا اثر جو دوسرے نماز یوں پر پڑتا ہے محتاجِ بیان نہیں اس لئے نماز میں ایک جہت کا تَعیُّن ضروری ہے مگر اس میں انسانی عقل کو دخل نہیں بلکہ جوذاتِ پاک سزا وارِ عبادت (1) ہے یہتَعیُّن اسی کا حق ہے۔
رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پہلے مکہ میں کعبہ کی طرف نماز پڑ ھا کرتے تھے ہجرت کے بعد بحکم الٰہی بنا بر حکمت ومصلحت ِوقت بیت المقدس آپ کا قبلہ مقرر ہوا، چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے سو لہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑ ھی۔ یہود آپ پر طعن کیا کر تے تھے کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ہماری مخالفت کر تے ہیں مگر قبلہ میں ہمارے تابع ہیں اس لئے آپ کی یہ آرزو ر ہی کہ ملت ِابر اہیمی کی طرح میرا قبلہ بھی ابر اہیمی ہی ہو۔ مدتِ مذکورہ کے بعد اللّٰہ تعالٰی نے آپ کی یہ آرزوپوری کر دی:
قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗؕ- (البقرۃ، ع۱۷)
بیشک ہم دیکھتے ہیں تیرے منہ کا پھرنا آسمان کی طرف پس ضرور ہم پھیریں گے تجھ کو اس قبلہ کی طرف کہ تو اسے پسند کر تا ہے۔ پس پھیر منہ اپنا مسجد حرام کی طرف اور جس جگہ تم ہواکرو پس پھیرومنہ اپنے اس کی طرف۔ (2)
اس تحویل کی کیفیت یہ ہے کہ نصف رجب یومِ دو شنبہ (3) یا نصف شعبان یوم ِسہ شنبہ (4) کو حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممسجد بنی سلمہ میں نماز ظہر پڑ ھا رہے تھے تیسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ وحی الٰہی سے آپ نے نماز ہی
میں کعبہ کی طرف رخ کر لیا اور مقتدیوں نے بھی آپ کا اتباع کیا۔ اس مسجد کو ’’ مسجد قِبْلَتَیْن ‘‘ کہتے ہیں ۔ ایک نمازی جو شامل جماعت تھا عصر کے وقت مسجد بنی حارثہ میں گیا اس نے دیکھا کہ وہاں انصار نماز عصر بیت المقدس کی طرف پڑ ھ رہے ہیں اس نے تحویل ِقبلہ کی خبر دی۔ وہ لوگ نماز ہی میں کعبہ رخ ہوگئے۔ دوسرے روز قباء میں عین اس وقت خبر پہنچی جب کہ لوگ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے بھی اسی حال میں اپنا رخ بدل کر کعبہ کی طرف کر لیا۔ (1)
تحویل ِقبلہ یہودیوں پر سخت نا گوار گزرا، وہ اس پر اعتراض کرنے لگے۔ان کا اعتراض اور اس کا جواب قرآنِ کریم میں یوں مذکورہے:
{۱} سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَاؕ-قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُؕ-یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۱۴۲) (البقرۃ، ع۱۷)
اب کہیں گے لوگوں میں سے بیوقوف کس چیز نے پھیرا ان کو ان کے قبلے سے جس پر وہ تھے کہہ دے اللّٰہ کی ہے مشرق اور مغرب چلا تا ہے جسے چاہتا ہے سید ھی راہ کی طرف۔ (2)
{۲} وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِؕ-وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُؕ- (البقرۃ، ع۱۷)
اور نہیں مقررکیا ہم نے قبلہ اسکو جس پر تو پہلے تھا (یعنی کعبہ ) مگر اسی واسطہ کہ معلوم کریں کون تابع رہے گا رسول کا اور کون پھر جاوے گا الٹے پاؤں اور البتہ یہ قبلہ ہے شاق ودشوار مگر ان لوگوں پر جن کو راہ دکھائی اللّٰہ نے (حکمت ِاحکام کی) ۔ (3)
پہلی آیت میں ان کا اعتراض نقل کر کے یوں جواب دیا گیا کہ شرق وغرب بلکہ جِہاتِ سِتَّہ (4) سب خدا عَزَّوَجَلَّ
کی ہیں ، اس کو کسی خاص جہت سے خصوصیت نہیں کیونکہ وہ مکان وجہت (1) سے پاک ہے وہ جس جہت کو چاہے قبلہ مقرر کر دے ہمارا کام اطاعت ہے۔ دوسری آیت میں مذکور ہے کہ تحویل قبلہ اس واسطے ہو اکہ ثابت و مُتَزَلزَل میں (2) تمیز ہو جائے۔
________________________________
1 – المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،تحویل القبلۃ وفرض رمضان وزکاۃ الفطر،ج۲،ص۲۴۲۔۲۴۵۔ علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:اب کہیں گے بے وقوف لوگ کس نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے جس پر تھے تم فرمادو کہ پورب پچھم سب اللّٰہہی کا ہے جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے۔ (پ۲،البقرۃ:۱۴۲) علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:اور اے محبوب تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتاہے اور بے شک یہ بھاری تھی مگر ان پر جنہیں اللّٰہنے ہدایت کی۔(پ۲،البقرۃ:۱۴۳) علمیہ
4 – چھ سمتیں ۔