بہت سے اولیاء اللہ امام صاحب کے مقلد ہیں
م ۔ ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ امام صاحب ایک بار مسجد الحرام میں بیٹھے تھے ، لوگ آتے اور مسائل پوچھتے اور آپ جواب دیتے جاتے تھے ، اتنے میں امام جعفر صادقؒ وہاں تشریف لائے اور یہ حالت کھڑے دیکھ رہے تھے کہ امام صاحب کی نظر آپ پر پڑی اور فراست سے دریافت کر کے کھڑے ہوگئے اور کہا کہ یا ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر پہلے سے مجھے معلوم ہوتا کہ کھڑے ہوئے ہیں ، خدا تعالیٰ مجھے اس حالت میں نہ دیکھتا کہ میں بیٹھا رہوں اور آپ کھڑے ہوں ۔ آپ نے فرمایا : اے ابو حنیفہ ! بیٹھ جاؤ اور لوگوں کو جواب دو ، میں نے اپنے آباء و اجداد کو بھی اسی حالت پر پایا ہے ۔
دیکھئے ! امام صاحب جو جواب دیتے جاتے تھے وہ سب مسائل فقہیہ تھے ، جن کو تقلیداً سب مان رہے تھے اور امام جعفر صادق ؒ نے بھی اُس کی تحسین کی ۔
در مختار میں لکھا ہے کہ بہت سے اولیاء کرام نے امام صاحب کی تقلید کی ، چنانچہ اُن میں سے چند حضرات یہ ہیں : ابراہیمؔ ادہم ‘ شقیقؔ بلخی ‘ معروفؔ کرخی ‘ بایزؔید بسطامی ‘ فضیل ؔبن عیاض ‘ داؤدؔ طائی ‘ احمدؔ بن خضرویہ ‘ ابوبکرؔ وراق ‘ وغیرہم ۔
شامیؒ نے وغیرہم کی شرح میں لکھا ہے : جیسے ، حاتم اصم اور محمد شاذلی ۔ قدست اسرارہم ۔ ’’حدائق الحنفیہ‘‘ میں مولوی فقیر محمد صاحب جیلمی نے اور بہت سے اولیائے کرام کے نام لکھے ہیں جو حنفی المذہب اور امام صاحب کے مقلد ہیں ، منجملہ ان کے چند حضرات یہ ہیں : داتا گنج بخشؒ ‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ، حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءؒ ‘ خواجہ محمد پارساؒ‘ مجدد الف ثانی ؒ ‘ ملا قطب الدین سہالویؒ ‘ شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی ۔ قدست اسرارہم ۔
حدائق الحنفیہ میں اور بہت سے اسماء گرامی احناف کے لکھے ہیں ، فی الحقیقت یہ کتاب قابل دید ہے اور یہ حدائق قابل تفرج ہیں۔ بہت بڑا سرمایۂ معلومات اس میں مخزون ہے۔
یہ بات قابل تصدیق ہے کہ جب کسی قوم کے سربرآوردہ اور معتمد علیہ کوئی کام کرتے ہیں تو اُن کے دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی وہ کام کرنے لگتے ہیں اور چند روز میں وہ کام اُس قوم کی ضروریات میں داخل ہوجاتا ہے ۔ اب دیکھئے کہ جب نامی گرامی ، مرجع خلائق محدثین و اولیاء کرام نے امام صاحب کی تقلید کی تو اُن کے شاگرد اور معتقد کس کثرت سے امام صاحب کے مقلد ہوگئے ہوں گے؟
ما بعد کی صدیوں میں جو حنفیہ کی کثرت ہوتی گئی جس پر حالت موجودہ شاہد عدل ہے ، اسی ابتدائی کثرت کا اثر ہے ۔ غرضکہ علماء کا کثرت سے امام صاحب کے مقلد ہونا اس بات پر قطعی دلیل ہے کہ متدین علماء نے ایسے زمانہ میں آپ کو مجتہد مطلق مان لیا تھا جو شباب علم کا زمانہ تھا ۔ اہل انصاف سمجھ سکتے ہیں کہ جب خیر القرون میں امام صاحب کی تقلید
نہایت سرگرمی سے ہوئی اور اُس زمانہ کے اہل احتیاط محدثوں نے اُس کو جائز رکھا اور خود بھی کرتے رہے تو اس بے علمی کے زمانہ میں ۔ جس کی خبر احادیث میں دی گئی ہے ۔ کس قدر اُس کی ضرور ت ہے ۔ آخری زمانہ کی نسبت احادیث میں مصرح ہے کہ اُس میں دین عجائز اختیار کیاجائے اور ظاہر ہے کہ دین عجائز صرف تقلید ہی ہوا کرتا ہے ، اُن کی جلبت میں یہ بات ہوتی ہے کہ نئی بات کے سخت دشمن ہوتے ہیں۔