بہترین شخص وہ جو حاکم بننے سے سخت متنفرہو
خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : تَجِدُوْنَ مِنْ خَیْرِالنَّاسِ اَشَدَّہُمْ کَرَاہِیَۃً لِہٰذَا الْاَمْرِ حَتَّی یَقَعَ فِیْہِ یعنی تم لوگوں میں بہترین شخص اسے پاؤ گے جو اس حکومت سے سخت متنفر ہو حتی کہ اس میں مبتلا ہو جائے ۔(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲/ ۴۹۷حدیث:۳۵۸۸)
فقیہ اعظم ہند، شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : یعنی جو شخص امارت قبول کرنے کو ناپسند کرتا ہو اسے والی(حکمران) بنا دیا جائے تو اللّٰہ کی مدد اس کے شامل حال ہوگی ، قبول کرنے سے پہلے ناپسند کرتا تھا لیکن امیر بنائے جانے کے بعد جب اللّٰہ کی مدد شامل حال ہوگی تو اس کی کراہیت (ناپسندیدگی) دُور ہوجائے گی۔(نزہۃالقاری، ۴/ ۴۸۷)
حکومت نہ مانگو !
حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن ابنِ سَمُرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللّٰہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا : حکومت نہ مانگو ! کیونکہ اگر تم طلب سے حکومت دیئے گئے تو تم اس کے حوالے کردیئے جاؤ گے اور اگر تم بغیر طلب دیئے گئے تو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی ۔(مسلم ، کتاب الامارۃ، باب النھی عن طلب الخ ، ص۱۰۱۴ ، حدیث : ۱۶۵۲)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : دنیاوی اِمارت و حکومت طلب کرنا ممنوع ہے ، مگر دینی اِمارت طلب کرنا عبادت ہے ، رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم سے دعا کیا کرو کہ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴) (پ۱۹، الفرقان:۷۴) خداوندا ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔خیال رہے کہ سلطنت حکومت نفسانی خواہش، دنیا وی مال، عزت کی لالچ سے طلب کرنا حرام ہے کہ ایسے طالبِ جاہ لوگ حاکم بن کر ظلم کرتے ہیں مگر جب
نااہل سلطان یا حاکم بن کر ملک کو بربادکررہے ہوں یا برباد کرنا چاہتے ہوں تو دین و ملک کی خدمت کے لئے حکومت چاہنا حاصل کرنا ضروری ہے ۔حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلام نے بادشاہ مصر سے فرمایا تھا : ’’ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(۵۵) ‘‘ (پ۱۳ ، یوسف : ۵۵( (ترجمہ کنز الایمان : مجھے زمین کے خزانوں پر کردے ، بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں ) لہٰذا یہ حدیث ان مذکورہ دونوں آیتوں کے خلاف نہیں کہ اس حدیث سے طمع دنیاوی کے لئے دنیاوی اِمارت چاہنے کی ممانعت ہے ۔حضرت صدیق اکبر(رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) نے حضور(صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے پردہ فرمانے کے بعد بکوشش ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی تھی اور پھر امیربن کر دین و ملک کی خدمت کی جس سے دنیا خبردار ہے ، آج تک اسلام و قرآن کی بقا حضرت صدیق (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) کی مرہونِ منت ہے ۔(مراٰۃ المناجیح، ۵/ ۳۴۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد