ا ل (الف لام )
الف وہ حرف ہے جس کو عالم حروف یعنی حروف تہجی میں صدارت حاصل ہے،جتنے حروف ہیں سواے ہمزہ کے سب کے نام کی ابتداء میں تلفظ اسی حرف کا ہوتا ہے جس کانا ہے ،جیسے ’’لام ‘‘ کہ اس کے شروع میں (ل)ہے بخلاف ’’الف ‘‘ کے اس کے نام کی ابتداء میں (ا)نہیں بلکہ ہمزہ ہے ۔ جس سے ظاہر ہے کہ جس طرح تمام عالم حروف میں اسم ذات مسمیٰ پر دلیل ہے الف میں وہ بات نہیں ،جیسے اسم الٰہی ذات الٰہی پر دلیل نہیں ہے ۔اگر لفظ ’’اللہ ‘‘ عجم میں نا واقفوں کے روبرو کہا جا ئے تو کسی کا
خیال اس کے مسمیٰ کی طر ف منتقل نہ ہوگا ۔ چونکہ ہمزہ نے الف کے نام سے خاص تعلق پیدا کیا اس وجہ سے اس میں بھی خاصیت پیدا ہوگئی کہ ہمزہ کا نام بھی اپنے مسمی پر دلیل نہیں ۔
ذاتِ الف جب نہاں خانہء بطور سے دارا لسلطنت عالَم حروف یعنی دہن میں جلوہ گر ہوتاہے تو زبان ،لب،حلق جن کو مخارج سے حروف کے ناکالنے میں دخل ہے وہ کل مخارج حروف سے بے تعلق اور علحدہ ہو جا تے ہیں تاکہ کہیں کوئی حرف نکل نہ پڑے ۔غرضکہ جس وقت الف برآمد ہو تا ہے کل اعیان ثابتہ حروف کے زاویہ ،خمول میں رہتے ہیں اور الف ان سب کے مقامات پر مسلط ہو تا ہے اس وقت جدھر دیکھئے الف ہی ہے ۔
اہل اعتبار سمجھ سکتے ہیں کہ الف کو جو اس قدر تسلط حاصل ہے وہ بدولت سکون ہے ۔ اسی وجہ سے جو خاص بندگان الٰہی ہیں وہ اپنے خالق کے روبرو ایسے بے حس و حرکت ہو تے ہیں کہ کسی بات میں دم نہیں مارتے ،نہ ان کو اپنے نفع سے غرض ہو تی ہے نہ نقصان سے کام ،وہ ایسے ہو جا تے ہیں جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ۔ حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کن کمالمیت فی ید الغسال ۔جب سکون اس کا اس حد تک پہونچ جا تا ہے تو ان کو عالم میں تصرف دیا جا تا ہے ۔
الف مکتوبی کو باوجود اس کے کہ عالم حروف میں صدارت حاصل ہے ،مگر اس کوکسی کے ساتھ پیو ستگی نہیں ۔ دیکھئے وہ کسی کے ساتھ نہیں ملتا ،یہ بات اور ہے کہ کوئی اوپر سے اگر اس کے ساتھ مل جائے مگر وہ اپنی طرف سے کسی سے نہ ملے گا ۔ یہی حالت اہل تجرد کی ہو تی ہے کہ ان کواپنی ذات سے کسی کے ساتھ دل بستگی نہیں ہوتی،اگر بامر الٰہی کسی کوان کے ساتھ تعلق ہو جا تے تووہ اس کو گوارا کر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ للہی تعلق اور محبت اہل اللہ کے ساتھ ان کو ہوتی ہے ۔اہل تجرد کو الف کے ساتھ نہایت خصوصیت ہو تی ہے ،چناچہ کسی بزرگ نے فرمایا ہے :
نیست بر لوحِ دلم الفِ قامت یار
چہ کنم حرفِ دگر یاد ندا د اوستادم
الف مکتوبی کو ایک اور خصوصیت اور فضیلت حاصل ہے کہ جس طرح عالم حروف میںاس کوصدارت حاصل ہے عالم اعداد میں بھی اس کو صدارت حاصل ہے ۔ اس کا مدلول جو ایک ہے ہر چند عالم اعداد کی ابتداء اسی سے ہے مگر سلسلہ ء اعداد میں وہ شریک نہیں ، کیونکہ عدد بنانا اس کا کام ہے ، اور ظاہر ہے کہ جو چیز بنائی جائے بنانے والا اس سے خارج ہوگا ۔
دیکھئے ایک (ا)جب تک اپنی وحدت ذاتی پر ہے اس میں کسی قسم کا تعددنہیں،پھر جب اس ایک کے ساتھ دوسرا ایک ملا دو (۲)ہو ئے ،اس دو کو بنانے والا وہی ایک ہے جو ایک پر زیادہ ہونے سے دوبن گئے ۔ پھر دو پر وہی ایک زیادہ ہوا تین (۳)ہو گئے ، اس تین کوبھی اسی ایک نے بنایا ۔ علیٰ ہذا القیاس ہر عدد کے وجود میںایک کو دخل ہے ،کیونکہ اگر ایک اس سے ہٹ جائے تو وہ فنا ہو جائے گا ۔ یہ امر مسلم ہے اعداد ایک ایسا عالم ہے کہ اس کی انتہاء ہی نہیں کیونکہ عددکا سلسلہ غیر تنہاہی ہے اور ہر ایک عدد اپنے تشخص و ذات میں مستقل اور دوسرے سے ممتاز ہے ،اگر کوئی چار کو پانچ کہے تو دیوانہ سمجھا جا ئے گا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ عالم اعداد میں غیر تنہا ہی اشخاص ہیں اور وہ ’’ایک ‘‘سب کے ساتھ ہے مگر کسی کا عین نہیں بلکہ سب کو وجود دینے والا ہے۔اب دس ’’ایک ‘‘ کے تجرد کو دیکھئے کہ باوجود سب کے ساتھ ہونے کے کوئی عدد یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ایک میں ہوں ۔ پھر لطف خاص یہ ہے کہ جد ھر دیکھئے ایک ہی ہے اور اسی کا ظہور ہے ۔
جو عددوں کو جو آپس میں ضرب دیا جا تا ہے جس سے کثرت پیدا ہوتی ہے اس میں بھی یہی راز ہے کہ ’’ایک ‘‘ جتنے منازل و مراتب طے کر تا ہے ان کا مجموعہ حاصل ضرب ہو تا ہے ،مثلاً ۴ کو ۵ ضرب دیں تو ۴ مضروب اور ۵ مضروب فیہ ہوں گے ۔ اگر اصلی شکل ہر لکھیں تو یو ں لکھے جا ئیں گے ۱۱۱۱۱x۱۱۱۱ ۱۱۱۱۱x۱۱۱۱ اور ان کے ضرب دینے کامطلب یہ ہوگا کہ ان چاروں میں سے ایک کو ان پانچوں پر لگا ئیں گے اس طرح پہلا ایک ان پانچوں پر لگا یا جا ئے ئگا تو ۵ حاصل ہوں گے جو اس کے ہر ایک کے ساتھ متعلق ہونے کی گنتی ہے ،اسی طرح جب دوسرا لگا یا جائے گا تو اور ۵ حاصل ہوںگے،یہا ںتک کہ چاروں کو لگانے سے ۵ کے چا ر مجموعہ حاصل ہوں گے جو بیس ہو تے ہیں ۔ہر چند ظاہر اً چاروں میں سے ہر ایک پانچ کے مجموعہ میں چلا اور پانچ منازل طئے کئے مگر جب غور سے دیکھاجائے تو چاروں میں ہر ایک کی حقیقت ایک ہی ہے اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک نے بیس منازل طئے کئے ۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ چار جو ایک عددی ہے بحیثیت مجموعی مضروب نہیں بلکہ مضروب اس میں سے ایک ہی ایک ہے ،کیونکہ ضرب کرنے سے مقصود نہیں کہ چار کو پانچ پر ماریں تو وہ ٹوٹ کر ان کے بیس ٹکڑے ہو ں گے بلکہ مثال مذکور میں ۴x۵ چار کی ہر ایک اکائی کو پانچ کی ہر ایک اکائی کے ساتھ ملا یا جائے یعنی ضرب دیا جائے تو ہر اکائی کے ضرب میں کچھ بھی نہ بڑھا ،کیونکہ ایک کو ایک میں ضرب دینے سے ایک ہی حاصل ہوتا ہے
،مگریہ کہنا صحیح ہوگا کہ پانچ اکائیاں حاصل ہو ئیں ۔ علی ہذا القیاس چار بار ضرب دینے سے بیس اکائیاں حاصل ہو ںگی اور بیس کی ہیٔت مجموعی پیدا ہوگی ۔اب غور کیجئے کہ عالم عددمیں کثرت کو دیکھئے تو کچھ انتہاء ہی نہیں اور وحدت کو دیکھئے تو ہر طرف ایک ہی ایک ہے ، کہیں اس کے ذاتی تشخص ہی فرق نہیں ۔
جولوگ بالغ النظر ہیں ان کی نظر عالم میں بھی اسی ایک پرجا پڑتی ہے جو تمام عالم اور ہر شئے کو بنانا والا ہے ،اسی کی بدولت ان کو تقرب الٰہی حاصل ہو تا ہے ۔ کیوں نہ ہو جب ہمیشہ ا ن کو کثرت عالم میں خیال اسی ذات و حدہ لا شریک لہ کا ہوتو اس سے زیادہ اور کیا تقرب ہو سکتا ہے ۔وہ ہر چیز کو دیکھتے ہیں مگر التقات اور توجہ ان کی صرف اسی ذات پاک کی طرف ہو تی ہے جیسا کہ اس مثال سے واضح ہے :کوئی عمدہ کسی فن کی خوشخط کتاب کسی مجلس میں پیش ہو جہاں عالم ،خوشنویس ،تاجر وغیرہ موجود ہوں اس کوسب دیکھیں گے مگر ہر ایک کی نظر جدا ہوگی ۔ مثلاً عالم ماہر فن کی نظر اس کتاب کے مضمون کی طرف ہوگی ،اور خوشنویس کی نظر خط پر ،اور تاجر کی نظر قیمت پر۔حالانکہ ایک ہی چیز کو متعد لوگ دیکھ رہے ہیں مگر ہر ایک کی نظر جس امر پر ہے دوسرا اس سے غافل ہے ۔اگر ماہر فن سے پوچھا جائے کہ اس کے خط میں کوئی سقم تھا یا اعلیٰ درجے کے باقا عدہ تھا ؟تو کچھ بتا نہ سکے گا ۔اسی طرح خوشنویس سے پوچھا جائے کہ اس کتاب کا کیا مضمون تھا ؟تو کچھ نہ بتا سکے گا ۔اسی طرح اہل اللہ کی نظر ہر چیز میں علی حسب مراتب خداے تعالیٰ کی صنعت اور صفات وغیرہ پر پڑتی ہے جس سے وہ ہمیشہ مشاہدہ صفات الٰہی میں مستغرق رہتے ہیں ۔
الحاصل اعداد کے سلسلہ میں ہر ایک درجہ عدد کا ممتاز ہے ،مثلاً دو(۲)بہ نسبت نسبت تین (۳)کے ممتازہے کوئی دو کو تین نہیں کہہ سکتا ۔اور لاوزم بھی ہر ایک درجے کے جدا گانہ ہیں مثلاً دو زوج ہے اور تین فرد ہے ۔ اور مربع دو کا چار ہوگا اور تین کا نو ہوگا ۔ اسی طرح جذر وغیرہ میں بحسب تعین خاص امتیاز ہوگا ۔ جس سے ظاہر ہے کہ کوئی عدد دوسرے کاعین نہیں باوجود یکہ ہر مرتبہ میں ظہور اسی ایک کا ہے،گویا جتنے مراتب ہیں اسی ایک کے تعینات خاصہ ہیں ،جیسے وجود مطلق ایک ہے اور وجودات خاصہ جو مطلق کے تعینات ہیں اگر ان کے خاص خاص تعینات سے قطع نظرکر لیا جائے تو وہی وجود مطلق رہ جا ئے گا ۔کیونکہ مقید مطلق کا مظہر ہو تا ہے اور مقید کا ایک عین ثابت ہو تا ہے جس کو وجود نہیں کہہ سکتے ،اسی طرح ہر عدد کا ایک عین ثابت بھی ہوگا جس کو عددنہیں کہہ سکتے ۔
بالغ النظر ۲کو دو اکائیاں سمجھے گا اور ہر ایک معدود کو مستقل ایک کہے گا ،اور یہ خیال نہ کرے گا کہ (۲)مستقل عددہے تو ہر ایک ایک کا آدھا ہے ،بلکہ یہ خیال کر ے گا کہ محسوس ایک ایک ہے اور اس کو دو کہنا اعتبار ی ہے ۔ علی ہذا القیاس کا مراتب اعداد کا یہی حال سمجھا جائے ۔
اب دیکھئے غیر تنہا ئی سلسلہ میں جدھر دیکھئے حقیقتاً ایک ہی ایک ہے اور جتنے اعداد ہیں سب اعتبار ی ہیں ۔الف (ا)کو عالَم حروف میںجو صدارت ہے وہاں وہ کسی سے نہیں ملتا کیونکہ وہ عالم اشکال ہے ،اور عالَم اعداد میں بھی صدارت اسی کو ہے،مگر سب کے ساتھ اسے الفت ہے کیونکہ وہ کل اعداد کا بنا نے والا ہے ،اور ظاہر ہے کہ بنانے والے کو اپنے مصنوعات سے الفت ہوا کر تی ہے ۔