ایک خدا شناس مجنونہ:
حضرت سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں مجھے یہ خبر پہنچی کہ جبلِ مقطم کے قریب ایک عابدہ لڑکی رہتی ہے۔ میں نے چاہاکہ اس کی زیارت کروں۔چنانچہ، میں اس پہاڑ کے قریب جاکر تلاش کرتا رہا لیکن وہ دکھائی نہ دی ،میری ملاقات عابدوں کی ایک جماعت سے ہوئی، میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو وہ کہنے لگے:”تم ایک مجنونہ کے بارے میں پوچھتے ہو اور عقل مندوں کے متعلق نہیں پوچھتے؟” میں نے کہا:” مجھے اسی کے متعلق بتاؤ، اگرچہ وہ مجنونہ ہے۔” وہ پھر کہنے لگے: ”ہم اسے اپنے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ وہ کبھی گرتی ہے تو کبھی کھڑی ہو جاتی ہے، کبھی چیخ و پکار کرتی ہے تو کبھی خاموش ہوجاتی ہے،کبھی روتی ہے تو کبھی ہنستی ہے۔”میں نے کہا:”مجھے اس کا پتہ بتاؤ۔” تو ان میں سے ایک نے بتایا کہ ”آپ فلاں وادی میں چلے جائیں۔”چنانچہ، میں اس کی تلاش میں چل پڑا۔جب میں اس کے قریب پہنچاتو دھیمی دھیمی آواز میں اُسے چند اشعار پڑھتے سنا، جن کا مفہوم یہ ہے:
”اے وہ ذات جس کے ذکر سے دل اُنس محسوس کرتے ہیں! مخلوق سے کنارہ کش ہو کر میری اُمیدصرف تیری ہی ذاتِ کریمانہ ہے۔اے وہ ذات کہ تمام لوگ جس کے بندے ہیں! زمانہ گزر جائے گا مگر تیری محبت دلوں میں ہردم ترو تازہ رہے گی۔”
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس آواز کے پیچھے چل پڑا تو ایک لڑکی کو دیکھا، وہ بہت بڑی چٹان پر بیٹھی تھی۔ میں نے اسے سلام کیا تو وہ جواب دینے کے بعد کہنے لگی: ”اے ذوالنون! کیا ہوا کہ ایک مجنونہ کو ڈھونڈ رہے ہیں؟”میں نے پوچھا: ”کیاتم مجنونہ ہو؟”بولی:”جی ہاں،اگر میں مجنونہ نہ ہوتی تو مجھے ایسا کیوں کہا جاتا؟”پھر میں نے پوچھا:”کس وجہ سے تم مجنونہ ہو گئی ہو؟” تو اس نے جواب دیا:”اے ذوالنون!محبوب ِحقیقی عَزَّوَجَلَّ کی محبت نے مجھے باندھ رکھا ہے اور اُسی کے عشق نے مجھے بے چین کر دیا ہے۔” پھر میں نے پوچھا:”تمہارے عشق و محبت کا مقام کیا ہے؟” تو اس نے جواب دیا:”اے ذوالنون!محبت و عشق کامقام دل ہے اور وجد کا مقام باطن ہے۔”پھر وہ شدید گریہ کناں ہوئی ،یہاں تک کہ اس پر غشی طاری ہوگئی ۔جب افاقہ ہوا تو شدتِ محبت سے ایک آہِ سرد دِل پُردردسے کھینچتے ہوئے کہا: ”اے ذوالنون!محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرنے والوں کی موت یوں آتی ہے۔” پھر ایک زور دار چیخ مار کر زمین پر گر گئی،میں نے اسے ہِلا جُلا کر دیکھا تو اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔