آفتاب کا مغرب سے نکلنا

دُخان (دھواں )

اس کے بعد ایک بڑا دُھواں آسمان سے نمودار ہو گا جو چالیس روزر ہے گا۔ اس سے مسلمان زُکام میں مبتلا ہو جائیں گے۔کا فر وں اور منافقوں پر بیہوشی طاری ہوجائے گی۔ بعض ایک دن بعض دودن اور بعض تین دن کے بعد ہوش میں آئیں گے۔ (۳ )

آفتاب کا مغرب سے نکلنا

اس کے بعد ماہِ ذِی الحجہ میں یوم نحر کے بعد رات اس قدر لمبی ہو جائے گی کہ بچے چلا اٹھیں گے، مسافرتنگ دل

اور مویشی چر اگاہ کے لئے بے قرارہوں گے یہاں تک کہ لوگ بے چینی کی وجہ سے نالہ وزاری کریں گے اور تو بہ توبہ پکاریں گے۔آخر تین چار رات کی مقدار اس رات کے دراز ہونے کے بعد اضطراب کی حالت میں آفتاب مغرب سے چاند گرہن کی مانند تھوڑ ی سی روشنی کے ساتھ نکلے گا۔ اس کے بعد تو بہ کا دروازہ بند ہو جائے گااور اس دن آفتاب اتنا بلند ہو کر غروب ہو گا جتنا کہ چاشت کے وقت ہو تا ہے۔ پھر حسب معمول مشرق کی طرف سے نکلتا رہے گا۔ (۱ )

دَا بۃ الْا َرض

دوسرے روز لوگ اسی کا ذکر کر رہے ہوں گے کہ کوہِ صَفَازَلز لہ سے پھٹ جائے گا اور اس سے ایک عجیب شکل کا جانور نکلے گا جسے دابۃ الا رض کہتے ہیں ۔ وہ چہرے میں آدمی سے، گردن میں اُونٹ سے، دُم میں بیل سے، سر ین میں ہر ن سے، سینگوں میں بارہ سنگے سے، ہاتھوں میں بندر سے اور کانوں میں ہاتھی سے مشابہ ہوگا۔ پہلے یمن میں پھر نجد میں ظاہر ہو کر غائب ہو جائے گا۔پھر دوبارہ مکہ مشرفہ میں ظاہر ہوگا اس کے ایک ہاتھ میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کا عصااور دوسرے میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلام کی انگوٹھی ہو گی۔ وہ ایسی تیز ی سے شہر وں کا دورہ کر ے گا کہ کوئی بھاگنے والا اس سے نہ بچ سکے گا۔ وہ اہل ایمان کی پیشانی پر عصائے موسیٰ سے ایک نورانی خط کھینچ دے گا جس سے تمام چہرہ نورانی ہو جائے گا اور کفار کی ناک یا گردن پر خاتم سلیمان (۲ ) سے مہر کردے گا جس سے ان کا چہرہ سیا ہ اور بے رونق ہو جائے گا۔ ( ۳)

خانۂ کعبہ کا گرایا جانا

اس کے بعد ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس کے سبب سے ہر صاحب ایمان کی بغل میں درد پیدا ہو گا۔افضل فاضل سے، فاضل نا قص سے اور ناقص فاسق سے پہلے مر نے شروع ہو جائیں گے یہاں تک کہ کوئی اہل ایمان باقی نہ رہے گا۔ بعد ازاں کفارِ حبشہ کا غلبہ ہو گا اور ان کی سلطنت قائم ہو گی وہ خانۂ کعبہ کو ڈھادیں گے، حج موقوف ہوجائے گا، قرآن مجید
دلوں ، زبانوں اور کا غذوں سے اُٹھ جائے گا، خداترسی اور خوفِ آخر ت دلوں سے اُٹھ جائے گا، شرم وحیانہ رہے گی، آدمی گدھوں اور کتوں کی مانند دوستوں کے سامنے جماع کریں گے، ( ۱) حکام کا ظلم اور رعایا کی ایک دوسرے پر دست درازی رفتہ رفتہ بڑھ جائے گی جس سے شہر وقصبات ویر ان ہو جائیں گے۔قحط و وَباکا ظہور ہو گا۔

ایک بڑی آگ

اس وقت ملک شام میں کچھ اَرْزانی ( ۲) ہو گی۔دیگر ممالک کے لوگ اہل وعیال سمیت شام کو روانہ ہوں گے۔ اسی اَثنا میں ایک بڑی آگ جنوب کی طرف سے نمودار ہو گی وہ ان کا تعاقب کرے گی یہاں تک کہ وہ شام پہنچ جائیں گے پھر وہ آگ غائب ہو جائے گی۔ (۳ )

نفخ صور

اس کے بعد چار پانچ سال لوگ عیش وعشرت کے ساتھ غفلت میں زندگی بسر کریں گے۔ بت پرستی عام ہوگی۔ کوئی اللّٰہ اللّٰہ کہنے والا نہ ہو گا۔یکایک جمعہ کے روز جو یوم عاشورا بھی ہو گا صبح کے وقت اللّٰہ تعالٰی اِسرافیل عَلَیْہِ السَّلام کو صور پھونکنے کا حکم دے گا۔ صورکی آواز کے صدمہ سے تمام جہان فنا ہوجائے گا، زمین وآسمان کے ٹکڑے ہو جائیں گے، چاند، سورج اور تمام ستارے ٹوٹ کر گر پڑیں گے، دریاخشک ہو جائیں گے، آگ بجھ جائے گی، سوائے ذاتِ باری تعالٰی کے کوئی باقی نہ رہے گا، اس وقت اللّٰہ تعالٰی فرمائے گا: ’’ لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَؕ- ‘‘ ( ۴) (آج سلطنت کس کی ہے ) پھر خود ہی جواب دے گا: لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (۱۶) (۵ ) (اس ایک اللّٰہ کی جو قہار ہے) ایک مدت کے بعد بار ِدِیگر (۶ ) نئے آسمان اور نئی زمین
پیدا ہو گی پھر حضرت اسر افیل عَلَیْہِ السَّلام دوبارہ صور پھونکیں گے اس کی آواز سے سب مُردوں کے جسم دوبارہ وہی بن جائیں گے اور زند ہ ہو کر قبر وں سے اٹھیں گے۔ (۱ ) اسی کو قیامت کہتے ہیں قیامت کے واقعات جو قرآنِ مجید واحادیث شریفہ میں مذکور ہیں مثلاً مُردوں کا ان ہی اَجساد کے ساتھ زندہ ہو کر اٹھنا، آفتاب کازمین کے قریب آجانا، حساب ِ اعمال ہونا، ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء کا نیک و بد اعمال کی گواہی دینا، نیکوں کو نامہ اعمال کا سامنے کی طرف سے دائیں ہاتھ میں ملنا اور بدوں کو پشت کی طرف سے بائیں ہاتھ میں ملنا، اعمال کا ترازو میں تُلنا، پل صراط سے گزرنا، مومنوں کا اپنے مرتبہ کے موافق کسی کا بجلی کی طرح، کسی کا دوڑ تے گھوڑ ے کی طرح ، کسی کا اُڑ تے پر ندے کی طرح ، کسی کا معمولی چال سے پل صراط عبور کر جانا اور منافقین وکفار کا کٹ کٹ کر دوزخ میں گر نا، حوض کو ثر کے لذیذ وسرد پانی کے پینے سے مومنوں کی سب کلفتوں کا دور ہو جانا اور جنت میں داخل ہو نا وغیرہ۔ ان سب کے لئے ایک علیحد ہ کتاب در کا رہے یہاں بطور نمونہ ذیل میں دو تین پیشگوئیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

________________________________
1 – الدرالمنثور فی التفسیر المأثور، الانعام :۱۵۸،ج۳،ص ۳۹۲۔۳۹۷۔علمیہ
2 – حضرت سیدنا سلیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ السَّلام کی مبارک انگوٹھی۔
3 – الدرالمنثور فی التفسیر المأثور، النمل : ۸۲،ج۶،ص۳۷۹۔۳۸۱ سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب دابۃ الارض، الحدیث :۴۰۶۶، ج ۴، ص ۳۹۳۔۳۹۴۔علمیہ

________________________________
1 – سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب اشراط الساعۃ ، الحدیث :۴۰۷۵،ج۴،ص۴۰۶ صحیح البخاری، کتاب الحج، باب قول اللّٰہ تعالٰی جعل اللّٰہ الکعبۃ۔۔۔إلخ، الحدیث:۱۵۹۱،ج ۱، ص ۵۳۶،عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، باب قول اﷲ تعالٰی جعل اللّٰہ الکعبۃ۔۔۔إلخ،تحت الحدیث: ۱۵۹۱،ج۷،ص۱۵۵۔۱۵۶۔علمیہ
2 – فراوانی۔
3 – مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی۔۔۔إلخ،تحت الحدیث:۵۴۶۴، ج ۹ ، ص ۳۶۷۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:آج کس کی بادشاہی ہے۔(پ۲۴،المؤمن:۱۶) ۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:ایک اللّٰہ سب پر غالب کی۔ (پ۲۴،المؤمن:۱۶)۔علمیہ
6 – دوبارہ۔

________________________________
1 – صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب ذھاب الایمان آخر الزمان ،الحدیث :۲۳۴،ص۸۸ شعب الایمان، باب فی حشر الناس۔۔۔إلخ،فصل فی صفۃ یوم القیامۃ ، الحدیث :۳۵۳،ج۱، ص ۳۱۲۔۳۱۳۔علمیہ

Exit mobile version