اِلٰہ
اِلٰہ کے معنی معبود کے ہیں مگر اس کے ماخذ میں اختلاف ہے ۔ بعضوں کا قول ہے کہ ولہ سے ماخوذ ہے اور ولہ اس حرکت کو کہتے ہیں کہ آدمی کسی مصیبت اور آفت کے وقت گھبرا کر اپنے مربی اور حامی کی طرف رجوع کر تا ہے جیسا کہ کہا جا تا ہے ولہ الطفل الی امہ یعنی بچہ گھبرا کر اپنے ماں کی طرف لپکا ۔ اس صورت میں الہ کی اصل وللہ ہوئی ۔ اور جس طرح ’’وشا ح ‘‘ میں وائو الف سے بدلا گیا یہاں بھی بدلا گیا اور معنی یہ ہوئے کہ :الہ وہ ذات ہے کہ جس کی طرف کل آفتوں میں لوگ گھبرا کر رجوع کریں
اور بعض کہتے ہیں کہ الہ اپنے اصل پر ہے جس کا وزن فعال ،اور معنی مفعول ہے ،جیسے اِمام اس شخص کو کہتے ہیں جس کی اقتداء کی جائے ،’’الو ہت ‘‘اور ’’الوہیت‘‘کے معنی عبادت کے ہیں ، اس صورت میں اِلٰہ بمعنی معبود ہوا ۔ہرچند کہ بہت سے لوگ خداے تعالیٰ کے سوا غیروں کی بھی عبا دت کر تے ہیں اور گھبراہٹ کے وقت اوروں کی طرف بھی متوجہ ہو تے ہیں مگر خداے تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب آدمیوں کے الہ ہم ہیں تو اس سے سمجھا جا تا ہے کہ یہ با عتبار واقع وحقیقت کے ارشاد ہے،کیونکہ عالم میں کوئی ایسا نہیں جو معبود یاہر حال میں پناہ دینے والا بن سکے ،جس کو دیکھئے خود محتاج ہے ،چناچہ ارشاد ہے اللہ الغنی وانتم الفقراء ۔ پھر اگر کسی کی پناہ لینے والا اپنے اعتقاد کی نظر سے گنہگا ر ہوگا مگر دراصل وہ اللہ ہی کی پناہ میں ہوتا ہے،اس لئے کہ جب تک حق تعالیٰ نے اس کو اس عالم میں باقی رکھنے کا ارادہ فرمایا ہے تو اس وقت تک تمام آفات مہلکہ سے بچا نا ایک لازمی امر ہے
اللہ تعالیٰ کی پناہ :
اگر بالفرض خداے تعالیٰ اس کو پناہ نہ دے اور اس کا دشمن اس کو ہلاک کر دے تو خلاف مشیت و تقدیر ہوگا ، اس صورت میں الہ الناس ہونا ہر طرح خداے تعالیٰ ہی کو مسلّم ہوا گو کسی دوسرے سے پناہ لے البتہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے کی پناہ لے اور حمایت میں جائے اور اس کو مستقل سمجھے تو بحسب خیال کا فر یا گنہگار ہوگا ۔ اور دوسرے کی پناہ یا حمایت کو اللہ ہی کی پناہ اور حمایت سمجھے تو اس عقیدہ کی وجہ سے کوئی الزام اس پر عائد نہیںہوسکتا ،کیونکہ یہاں توحید الوہیت مقصود ہے ،جیسے رب الناس میں توحید ربوبیت مقصود تھی ۔ اس طرح جس کی عبادت کی جا تی ہے دراصل وہ خداہی کی عبادت ہوگی ،کیونکہ سواے اللہ تعالیٰ کے اورکوئی معبود ہوہی نہیںسکتا ۔ مگر جس نے اپنی دانست میں غیر اللہ کوقابل عبادت سمجھا اور الہ الناس جو نص قطعی ہے اس کی
مخالفت کی تو ضرور مستحق عذاب ہوگا ۔
الوھیت :
اس صورت میں الوہیت ایک ہی ذات میں منحصر ہوگی اور لااِلٰہ غیرک کے معنی صادق آگئے ،یعنی کوئی الہ بحیثیت الوہیت غیر نہیں ، کیونکہ سواے اللہ تعالیٰ کے کسی کی عبادت نہیں ہوسکتی ۔ البتہ باعتبار ذات کے غیر ہے کیونکہ وہ خالق قدیم ہے اور یہ مخلوق حادث دونوں کیونکر ایک ہو سکیں ۔ہر چند ہر عابد اللہ ہی کی عبادت کر تا ہے مگر مشرکوں کے خیال میں یہ نہیں ہوتاکہ ہم اللہ کی عبادت کر تے ہیں ۔حق تعالیٰ فرما تاہے ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون یعنی میںنے جن وانس کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں ۔ اور اسی وجہ سے مشرک اوروہ لوگ جو اس عالم میں خدا کی عبادت نہیں کر تے دوسرے عالم میں دوزخ میں ڈالے جائیںگے ،کیونکہ قید خانہ کی خاصیت ہے کہ وہاں اللہ یا دآتا ہے چنانچہ مولانا روم فر ما تے ہیں :
جملہ رنداں چونکہ در زندں روند
متقی و زاہد و حق خواں شوند
چونکہ اصل عبادت یاد الٰہی ہے ،وہ دوزخ میں بھی ہوا کرے گی اور اللہ کو وہاں بھی بصدق دل خوب پکا ریں گے ،اورجو لوگ اِس عالم میں عبادت کر چکے وہ اُس عالم میں عبادت سے معاف کئے جائیں گے ،کیونکہ جنت دار تکلیف نہیں ہے ۔حق تعالیٰ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ اِس عالم میں عبادت کی تکلیف اٹھاکر اُس عالم میں فارغ البال ہو جائیں ۔