اسلام میں بہترین کون؟
سرکارِمدینۂ منوّرہ، سردارِمکّۂ مکرّمہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے : خِیَارُکُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُکُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقُہُوْا یعنی تم میں سے جو جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہترین ہیں جب کہ عالِم ہوجائیں۔(بخاری، کتاب التفسیر، ۳/ ۲۴۹حدیث:۴۶۸۹)
افضلیت کی چارصورتیں
علامہ ابنِ حجر عسقلانی علیہ رحمۃ اللّٰہ الوالی اس حدیثِ پاک کی شرح میں
فرماتے ہیں : یہاں بہتری کی چار صورتیں ہیں ، (۱)جو شخص دورِ جاہلیت میں بھی اچھی صفات مثلاً : اس کی طبیعت میں نرمی تھی اور اسلام لانے کے بعد بھی شرعی احکامات بجا لاکر اخلاقیات کو برقرار رکھااور اس کے ساتھ ساتھ اس نے دین کا علم بھی حاصل کیا تو ایسا شخص(۲) اس آدمی کے مقابلے میں اچھا اور بہتر ہے جو اسلام لانے سے پہلے بھی اچھے اخلاق والا ہو اور اسلام لانے کے بعد بھی مگر علم دین سے محروم ہو ۔(۳)وہ شخص کے جو اسلام لانے سے پہلے اچھے اخلاق سے مزین نہ تھا مگر اسلام نے اسے اچھے اخلاق اور علم دین سے مزین کیاایسا شخص(۴) اس شخص کے مقابلے میں افضل اور بہتر ہے جو اسلام لانے سے پہلے اچھے اخلاق والا نہ ہو مگر اسلام لانے کے بعد اس دولت سے آراستہ ہوجائے مگر علم دین سے محروم رہے ، کیونکہ دین کا طالبِ علم اس شریف آدمی سے کہیں زیادہ درجہ رکھتا ہے جو غیرِ عالِم ہو ۔(فتح الباری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ام کنتم شہداء۔۔۔الخ، ۷/ ۳۳۹تحت الحدیث:۳۳۷۴ بتصرف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد