احتیاطِ محدثین
ابن معینؒ کا قول ہے کہ ہم اُن اقوام میں کلام کرتے ہیں جو جنت میں داخل ہوچکے ہیں ۔ مطلب یہ کہ صلحا ء میں جو کلام کیا جاتا ہے اُس سے یہ بتلانا منظور نہیں کہ اُن کے دین میں کوئی نقص تھا ،بلکہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے مقدس مستجاب الدعوات اور جنتی ہیں ۔ یہاں تک کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی فضیلتیں بیان کیں ، مگر چونکہ تنقیح و تنقید حدیث کی خدمت میں مفوض ہے اس لئے جب تک پوری شرطیں نہ پائی جائیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ جس سے حدیث لیتے ہیں اُس کی تحقیق کی جائے کہ وہ عدل و ضابط ہے ، کسی کی رعایت نہیں کی جاتی ۔ گو ، فی نفسہ ولی اور مستجاب الدعوات ہو یہاں تک کہ خود اپنے باپ کی رعایت نہیں کی جاتی تھی ۔
جریر ابن حازم کا حال ابھی معلوم ہوا کہ وہ شیخ الشیوخ تھے ، اعمش ‘ ایوب ‘ ابن مبارک
اور وکیع جیسے اُن کے شاگرد تھے ، اُن کے فرزندوں نے جب دیکھا کہ حافظہ میں فرق آ رہا ہے، تو اُن کو چھوڑ کر تلاش حدیث میں دوسرے اساتذہ کے یہاں گئے ۔ دیکھئے جب اُن کے صاحبزادے تلاش حدیث میں نکلے ہوں گے تو محدثین نے ضرور پوچھا ہوگا کہ آپ اپنے گھر کی دولت کوچھوڑ کر گدائی کو کیوں نکلے تو انہوں نے ضرور اپنے والد کا نقص بیان کیا ہوگا ۔ دیکھئے جس کے پدر بزرگوار ایسے ہوں کہ عمر بھر ، نیک نام اور شیخ الشیوخ اور مرجع انام بنے رہے کیا اُس کی طبیعت گوارا کرے گی کہ اپنے والد کا نقص اور بے اعتباری ظاہر کر کے خود بھی ذلیل بنے ؟ مگر سبحان اللہ نفس قدسی اسے کہتے ہیں کہ دین کے معاملہ میں نہ ذلت کی پرواہ نہ عزت کا خیال ،کل اکابر محدثین کا یہی حال رہا ہے ۔
تہذیب التہذیب میں ابن السقا کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ وہ دارقطنی وغیرہ محدثین کے اُستاذ ہیں اور حدیث میں امام سمجھے جاتے ہیں ۔ ایک بار انہوں نے ایک حدیث پڑھی جو اوروں کے خلاف تحقیق تھی، وہ سنتے ہی لوگوں نے اُن کو اُٹھا دیا اور جس جگہ بیٹھے تھے اُس کو دھو ڈالا ۔ میزان الاعتدال میں جارودی کے ترجمہ میں حاکمؒ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے محمد یعقوب سے بارہا سُنا ہے کہ ابوبکر جارودیؒ جب کبھی اپنے دادا کی قبر پر سے گذرتے تو کہتے کہ اے جد پدر بزرگوار ! اگر آپ بہز ابن حکیم کی روایت بیان نہ کرتے تو میں آپ کی زیارت ضرور کرتا ۔
تعصب کی انتہاء ہوگئی ،اگر جد امجد نے کوئی روایت غلط بھی کی تھی تو اُس سے کافر نہیں ہوگئے تھے ،جو زیارت سے احتراز کیا گیا ،زیارت سے اتنا فائدہ تو ضرور ہوتا کہ کچھ پڑھ کر بخش دیتے ،جس سے اُس خطا کی معافی کی توقع تھی ۔ مگر بہز ابن حکیم کی اُس روایت کے ساتھ اتنا بغض تھا کہ اگرکبھی خون جوش بھی کھاتا ہوگا تو اُس حدیث کا خیال اُن کو زیارت سے روک دیتا تھا ۔ اگر اُن کی اس حرکت کو جنون سے تعبیر کریں تو بے موقع نہ
ہوگا، مگر ایسے جنون پر ہزار عقلوں کو قربان کرنا چاہئے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پاک کی حمایت و حفاظت میں اُن کی یہ حالت تھی ۔ غرضکہ محدثین کی حالت احتیاط حدیث میں عجب قسم کی ہوگئی تھی گو بعض حرکات اُن کے ہم لوگ نہیں سمجھ سکتے ، مگر اصل منشا اُن کا کمال احتیاط تھی ،جس قدر حدیثیں بنانے میں لوگوں نے جرأ ت کی اُس سے زیادہ ان حضرات نے احتیاط میں زیادتی کی اگر کسی سے ایک بات خلاف دیکھتے تو اُس کی صحیح حدیثیں بھی ترک کر دیتے ۔
تہذیب التہذیب میں ابراہیم ابن محمد کے حال میں لکھا ہے کہ نعیم ابن حماد کہتے ہیں کہ اُن کی کتابوں کی نقل میں پچاس اشرفیاں میں نے خرچ کیں ،جب سب کی نقل ہوگئی تو انہوں نے ایک روز اورایک کتاب نکالی، جس میں قدر کا مسئلہ تھا کہ تقدیر کوئی چیز نہیں اور دوسری کتاب نکالی جس میں جہم کی رائے تھی ،جس کے قائل جہمیہ ہیں۔ میں نے کہاکیا آپ کی بھی یہی رائے ہے ؟ کہا ہاں، یہ سنتے ہی وہ تمام کتابیں جو نہایت شوق سے بصرف زر کثیر نقل کرائی تھیں ، سب پھاڑ کر پھینک دیں ۔
تہذیب التہذیب میںمحمد ابن حمید کا قول نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی جعفر سے میں نے دس ہزار حدیثیں لکھیں ۔ ایک روز انہوں نے کہا کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جو صحابی ہیں ، فاسق تھے یہ سنتے ہی میں نے وہ کل حدیثیں جو لکھی تھیںپھینک دیں ۔
مولانا واستاذنا مولوی محمد عبد الحی صاحب مرحوم نے الرفع و التکمیل میں لکھا ہے کہ شعبہؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے فلاں شخص کی حدیث کو کیوں ترک کر دیا ؟ کہا :میں نے اُس کو دیکھا کہ گھوڑے پر سوار ہے اور اُس کو ایڑیں مار رہا ہے۔ فقط ایڑ مارنا تو عیب کی بات نہیں ، جس کو شعبہؒ جیسے جلیل القدر شیخ الشیوخ نے قابل ترک سمجھا ہو البتہ کوئی ناشائستہ
خلاف شان حرکات اُس میں ضرور تھے ،جس سے اُنہوں نے اُس کو ترک کر دیا۔
اُس میں مولانائے موصوف نے لکھا ہے کہ شعبہؒ ، منہال ابن عمر کے یہاں طلب حدیث کے لئے گئے دیکھا کہ گھر میںسے طنبور کی یا خوش الحان قرأت کی آواز آ رہی ہے ،یہ سنتے ہی باہر ہی سے لوٹ گئے اور پھر اُس سے حدیث نہیں لی (۱)۔ معلوم نہیں مقامی خصوصیات کیا تھیں جن سے اُن کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے ،بہر حال اتنا تو معلوم ہوا کہ احتیاطیں اس درجہ کی تھیں۔
اسی میں لکھا ہے کہ ابن عیینہؒ(۲) سے پوچھا گیا کہ زاذان سے آپ روایت کیوں نہیں کرتے ۔ کہا وہ باتیں بہت کیا کرتے تھے ۔
اُسی میں لکھا ہے کہ جریرؒ نے سماک ابن حرب کو دیکھا کہ کھڑے ہوئے پیشاب کر رہے ہیں اِس لئے اُن کو ترک کر دیا اُسی میں لکھا ہے کہ جومحدثین اعمال کو جزو ایمان سمجھتے تھے، اہل کوفہ سے روایت نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ وہ اعمال کو جز و ایمان نہیں سمجھتے ہیں ۔ بہت سے محدثین نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت نہیں کی اس وجہ سے کہ اُن کو اہل رائے سمجھتے تھے ۔ میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ مکی ابن ابراہیم نے حمید طویل سے حدیث نہیں لی، اس وجہ سے کہ وہ سیاہ لباس پولیس والوں کا سا پہنتے تھے ۔
ہمیں یہاں صرف یہ بتلانا منظور ہے کہ اُن کی احتیاطیں کیسی تھیں ، نہ ولی کی ولایت اُن کے فرض منصبی ادا کرنے میں مانع ہوتی تھی ،نہ قرابت و احباب کی محبت نہ اپنی کسرشان کا خیال ،غرضکہ ان حضرات نے احتیاط کا حق ادا کر دیا ۔ اب رہی یہ بات کہ وہ ضرورت سے زیادہ کام میں لائی گئی سو اُس میں وہ حضرات معذور ہیں اس لئے کہ جب آدمی کسی
طرف ہمہ تن مشغول ہوتا ہے تووقتاً فوقتاً نئی نئی باریکیاں اور نزاکتیں ، اُس کے خیال میں آتی جاتی ہیں، جن کو ہر کوئی سمجھ نہیں سکتا اور ادنیٰ ادنیٰ بات جس کو اور لوگ قابل توجہ نہیں سمجھتے اُس کو بڑی معلوم ہونے لگتی ہے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جن لوگوں کو حفظان صحت کا خیال زیادہ ہوتا ہے ،وہ کھانے پینے میں بلکہ ہر ایک کام میں کیسی کیسی احتیاطیں کرتے ہیں کہ اُن کی صحت بجائے خود ایک سخت بیماری ہوجاتی ہے ،اِسی طرح جن کو طہارت کا زیادہ خیال ہوتا ہے اُن کی احتیاط و سواس کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ آبدست اور غسل وغیرہ میں اتنا پانی خرچ کرتے ہیں کہ شریعت میں وہ اسراف اور حرام ہے اور باوجودیکہ خود بھی وہ اُس کی برائیاں جانتے ہیں ، مگر طبیعت سے مجبور ہیں اُس احتیاط کو چھوڑ نہیں سکتے۔ اسی طرح محدثین کو ہمیشہ احتیاط کا خیال لگا رہتا تھا اور ہمیشہ اِس خیال میں رہتے کہ جو حدیث لیجائے کسی متدین اور محتاط شخص سے لیجائے، پھر تدین کی نزاکتوں میں جس قدر خیال ترقی کرتا گیا ،تدین کا دائرہ تنگ ہوتا گیا ۔ یہاں تک کہ گھوڑے کو زیادہ ایڑیں مارنا بھی خلاف تدین محسوس ہونے لگا ، چونکہ ہر معاملہ میں طبیعت کو بڑا ہی دخل ہے اس لئے جن اہل احتیاط کی طبیعتوں میں حرارت زیادہ تھی ، وہ لوگ مغلوب الغیظ ہونے کی وجہ سے اس امر میں بہت افراط کرتے تھے ۔ جیسا کہ مشاہدہ سے ثابت ہے کہ جن علماء کی طبیعتوں میں حرارت اور غصہ زیادہ ہوا کرتا ہے، اپنی طبیعت کے مخالف ادنیٰ ادنیٰ بات میں بھی بُرا بھلا کہد یتے ہیں، بلکہ فاسق اور کافر کہنے میں بھی تامل نہیں کرتے اور تکفیر کی روایتوں کو چسپاں کرنے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں اور کسی طرح چسپاں کر بھی دیتے ہیں، اس طبیعت کے لوگ محدثین میں بھی بہت گذرے ہیں ۔
ابن حزم کا حال
ایک ابن حزم ہی کو دیکھ لیجئے کہ کس قدر اُن کی مزاج میں تشدد ہے ملل و نحل میںعیسیٰ علیہ السلام کے مشہور حواریین کا جہاں ذکر کرتے ہیں، تو سطروں کی سطریں نئی نئی گالیوں اور لعنتوں کی لکھ ڈالے ہیں ، اسی طرح معتزلہ وغیرہ فرق اسلامیہ پر بھی ہمیشہ لعنت کرتے رہتے ہیں، اکثر مقامات کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی فرقہ کے عقائد کو نقل کر کے قبل اسکے کہ اُن کو رد کریں ،خوب سی گالیاں دے لیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نقل مضمون کے وقت انہوں نے نہایت ضبط سے کام لیا، ورنہ جوش طبیعت سے معلوم ہوتا ہے کہ اثناء نقل میں بھی دو چار لعنتیں لکھ دیتے ۔ محلیّٰ اور اُس کی شرح میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ کسی مسئلہ میں ایک صحیح حدیث لکھ دیتے ہیں، اُس کے بعد کسی مجتہد کا نام لکھتے ہیں کہ اُس نے اِس کے خلاف کیا اور ساتھ ہی لعنت ،غرضکہ اُن کی اکثر تصانیف لعنت سے بھری ہوئی ہیں اور تحقیق کی یہ حالت کہ امام سخاویؒ نے فتح المغیث میں لکھا ہے کہ ابن حزم ؒکا قول ہے کہ ابو عیسیٰ ترمذی اور ابو القاسم بغوی مجہول ہیں۔ لیجئے اسلامی تمام دنیامیں ترمذی معروف و مشہور ہیں مگر حضرت اُن کو پہچانتے ہی نہیں ۔ پھر طریقہ یہ کہ جس کے مخالف ہوتے ہیں تو اُس کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیتے ہیں کہ اُس کے حاشیہ خیال میں نہیں، چنانچہ طبقات الشافعیہ میں امام سبکیؒ نے لکھا ہے کہ ملل و نحل میں انہوں نے ابو الحسن اشعریؒ کا مذہب بیان کیا ہے کہ اُن کے نزدیک ایمان صرف معرفت بالقلب کا نام ہے خدا کو دل سے پہچان لے تو بس ہے ۔ پھر اگر زبان سے اقسام کے کفریات بکے اور یہ بھی کہے کہ میں یہودی ہوں یا نصرانی ہوں تو بھی وہ مسلمان اور جنتی ہے ۔ حالانکہ کل اشاعرہ بلکہ تمام مسلمانوں کا مذہب یہ ہے’’کہ جو کفریات بکے یا کفارکے سے کام کرے تو وہ کافر مخلد
فی النار ہے ‘‘ اور لکھا ہے کہ محققین نے اُن کی کتابوں کو دیکھنے سے منع کیا ہے، اس لئے کہ اہل سنت کی وہ بہت تحقیر کیا کرتے ہیں انتہیٰ ۔ ادنیٰ تامل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ ایسے مغلوب الغیظ حضرات تحقیق مسائل یا جرح و تعدیل کی خدمت اپنے ذمہ لیں تو مسلمانوں کو مقتول نہیں تو مجروح تو ضرور کر دیں گے، بہرحال اِس قسم کی تحریرات میں وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ مرفوع القلم سمجھے جائیں ۔
ابن جوزی کا حال
اسی طرح ابن جوزیؒ کا بھی حال ہے، ان کی طبیعت کا انداز تلبیس ابلیس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ کسی مذہب اور فرقہ کو انہوں نے چھوڑا ہی نہیں ، سب پر کچھ نہ کچھ الزام لگا دیا ۔ علاوہ فرق باطلہ کے صوفیہ کے تو وہ دشمن ہی ہیں ، ہاتھ دھو کر اُن کے پیچھے پڑھ گئے، یہاں تک کہ مشہور ہے کہ انہوں نے حضر ت غوث الثقلین محی الدین جیلانی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کی تھی اور فقہاء تو بیچارے کس شمار میں؟ محدثین کو بھی انہوں نے نہیں چھوڑا ۔اس طبیعت کے لوگ کب کسی کے مقلد ہوسکتے ہیں ؟ جہاں انہوں نے دیکھا کہ حدیث کی اسناد میں ایسا شخص ہے کہ سابق کے محدثین نے اُس کو کاذب وغیرہ کہا تو اب وہ جامہ کے باہر ہیں نہ ،بخاری کو مانیں نہ مسلم کو، صاف کہدیتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔ امام سیوطیؒ نے اللاٰلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ میں لکھا ہے کہ حاکم ابن حبان اور عقیلی وغیرہ حفاظ کی عادت ہے کہ کسی حدیث کی سند میں کوئی راوی مخدوش ہو تو اُس کو وہ باطل لکھتے ہیں، ابن جوزی اُس سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ متن حدیث ہی موضوع ہے اور اس متن حدیث کو اس کتاب موضوعات میں داخل کر دیتے ہیں حالانکہ متن سے اُن حفاظ کو کوئی تعلق نہیں ہوتا ،بلکہ اکثر دوسری صحیح سندوں سے وہ متن ثابت ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے تمام علماء نے یہاں
تک کہ آخر میں ابن حجر عسقلانیؒ نے ابن جوزی پر الزام لگایا ہے کہ یہ اُن میں سخت عیب تھا اور اُسی میں لکھا ہے کہ ابن جوزی ؒ نے حدیث ’’ اذا بلغ العبد اربعین سنۃ امنہ اللہ من البلایا الثلث ‘‘ کو اپنی کتاب موضوعات میں داخل کیا ہے اور وجہ یہ لکھی کہ اُس کی اسناد میں عبادا بن عباد ہیں، جن کی نسبت ابن حبان نے یروی المناکیر کہا ہے ، اس لئے وہ مستحق ترک ہیں اور حدیث صحیح نہیں ۔ امام سیوطی ؒ نے ابو الفضل ؒ عراقی کا قول نقل کیا ہے کہ ابن جوزی نے جو عباد ابن عباد کوضعیف قرار دیا ، وہ خبط ہے ۔ ابن حبانؒ نے جن عباد ابن عباد کی نسبت یروی المناکیر کہا وہ فارسی ہیں ۔ اور اس روایت میں عباد ابن عباد مُہلی ہیں اور یہ وہ شخص ہیں کہ شیخین نے اُ ن کی حدیثوں سے احتجاج کیا۔ اور احمد اور ابن معین اور ابوداؤد و نسائی وغیرہم نے اُن کی توثیق کی انتہیٰ ۔ اِس قسم کے دھوکوں سے انہوں نے بعض صحاح کی حدیثوں کو بھی موضوع قرار دیا ۔ اس لئے اُن کا مجرد قول قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔
شمس العلماء مولوی شبلی صاحب نے سیرۃ النعمان میں لکھا ہے کہ محدث ابن جوزیؒ نے بہت سی حدیثوں کو موضوعات میں داخل کیا ہے، جن کو دوسرے محدثین صحیح اور حسن کہتے ہیں۔ ابن جوزی نے تو قیامت کی کہ صحیحین کی بعض حدیثوں کو موضوع لکھ دیا ، بیشک ابن جوزی نے اس افراط میں غلطی کی انتہی ۔ نہایت درست ہے جب اُن کی طبیعت اور اتفاق علماء سے معلوم ہوگیا کہ بلا تحقیق ایسی باتیں لکھدیتے ہیں تو اُن کی تحریر سے کوئی حدیث موضوع نہیں ہوسکتی اور نہ دوسرے محدثین کی تحقیق پر اُن کی تحریر کا اثر ہوسکتا ہے ۔ البتہ امام بخاریؒ جیسے مستند محدث کی تحقیق قابل وثوق ہے۔
مجملاًحال ِجرح و تعدیل
اِس موقع میں جرح و تعدیل سے متعلق تھوڑاسا حال معلوم کرلینا بھی مناسب ہوگا ۔ فتح المغیث میں امام سخاویؒ نے لکھا ہے کہ صحابہ ہی کے زمانہ میں بعض ایسے لوگ پیدا ہوگئے
تھے، جن پر انہوں نے لعن و طعن کی لیکن وہ بہت کم اور ممتاز تھے ۔ پھر تابعین کے زمانہ میں بھی اُن کی ایسی کثرت نہ ہوئی ،جو قابل توجہ ہو اس لئے کہ اکثر متبوع اورمقتدا صحابہ موجود تھے، جو کل عدول ہیں ۔ اور جو غیر صحابہ تھے ، وہ اکثر ثقات تھے ۔ اُن کے ہوتے اہل بدعت کے یہاں کون جاتا ؟ قرن اول جس میں صحابہ اور کبار تابعین تھے، اُن میں کوئی مقتدائے دین ضعیف نہیں پایاگیا،اُن کے بعد اوساط تابعین میں اگرچہ ضعفا ء پائے گئے، مگر اُن میں صرف تحمل اور ضبط حدیث کی نسبت کلام ہوا ،البتہ جب تابعین کا زمانہ قریب الختم ہو ایعنی سنہ دیڑھ سو کے حدود میں اس وقت توثیق اور جرح کی ضرورت ہوئی، چنانچہ ابو حنیفہ ؒ نے کہا کہ جابر جعفی سے بڑھ کر جھوٹا میں نے نہیں دیکھا اور اعمش اور امام مالک ؒ شعبہ اور اوزاعی وغیرہم نے بھی جرح و تعدیل کی، اُن کے بعد یحییٰ ابن سعید قطان ، ابن مہدی وغیرہ اُن کے بعد امام شافعیؒ اور ابو عاصم نبیل وغیرہ ،اُن کے بعد حمیدی اور یحییٰ ، ابن یحییٰ وغیرہ ائمہ جرح و تعدیل ہوئے ، اُن کے بعد جرح و تعدیل کی کتابیں تصنیف ہونے لگیں، اس کے بعد کے بھی بہت سے طبقات ائمہ فن کے سخاوی ؒ نے ذکر کئے، جن کے بیان کی یہاں ضرورت نہیں ۔
(۱) ایسے محتاط شخص امام صاحب کی تعریفیں کیا کرتے ہیں ۔ چنانچہ آئندہ معلوم ہوگا ۔ اس سے امام صاحب کی جلالت شان معلوم ہوسکتی ہے۱۲
( ۲) ایسے محتاط شخص امام صاحب کے مداح ہیں جیسا کہ معلوم ہوگا ۔