احتیاطِ صحابہ واکابر
مطالعہ کتب رجال سے معلوم ہوتا ہے کہ جرح و تعدیل کا عام قاعدہ یہی رہا ہے کہ حتی الامکان مشتبہ لوگوں سے احتراز رہا،خصوصاً صحابہ میں تو نہایت ہی اس کا تشدد رہا ،چنانچہ سنن دارمی میں روایت ہے ۔’’ عن نافع عن عمررضی اللہ عنہماانہ جاء ہ رجل فقال ان فلاناً یقرؤعلیک السلام فقال بلغنی انہ قد احدث فان کان قد احدث فلا تقرأ علیہ السلام ‘‘ یعنی ایک شخص ابن عمررضی اللہ عنہ کے یہاں آ کر کہا کہ فلاں شخص آپ کو
سلام کہتا ہے فرمایا: میں نے سنا ہے کہ اُس نے کوئی نئی بات ایجاد کی ہے ، اگر یہ واقعی ہے تو اُس کو ہمارے طرف سے جواب سلام نہ کہنا ،جب جواب سلام میں یہ احتیاط تھی تو اُس کی اور باتوں کی کیا وقعت ہوگی ۔ تقریباً یہی طریقہ اکابر تابعین میں بھی جاری رہا ۔ چنانچہ دارمی میں یہ روایت ہے ’’عن اسماء بن عبید قال دخل رجلان من اصحاب الاھواء علی ابن سیرینؒ فقالا یا ابابکر نحدثک بحدیث قال لا قالا فنقرأ علیک آیۃ من کتاب اللہ قال لا لتقومان عنی اولاقومن قال فخرجا فقال بعض القوم یا ابابکر وما کان علیک ان یقراٰ علیک آیۃ من کتاب اللہ تعالیٰ قال انی خشیت ان یقراٰ علیّ آیۃً فیحرفانھا فیقرذلک فی قلبی‘‘ یعنی اسما کہتے ہیںکہ دو شخص اہل ہوا یعنی فرق باطلہ کے ابن سیرین کے پاس آئے اور کہا کہ ہم ایک حدیث آپ کو سنانا چاہتے ہیں، کہا: میں نہیں سنتا ،کہا قرآن کی ایک آیت سناتے ہیں ،کہا :میں نہیں سنتا ،اب تم یہاں سے جاتے ہو یا میں چلا جاؤں یہ سُنکر وہی چلے گئے ،لوگوں نے پوچھا حضرت !اگر قرآن کی آیت آپ اُن سے سنتے تو کیا حرج تھا ؟فرمایا اس بات کا خوف تھا کہ اُس کے معنی کو اپنے مطلب کی جانب پھیر دیں اور وہی بات میرے دل میں جم جائے ۔ ابن جوزیؒ نے تلبیس ابلیس میں لکھا ہے کہ ایوبؒ سے ایک بدعتی نے کہا کہ میں آپ سے ایک کلمہ کہوں ؟ فرمایا نہیں بلکہ آدھا کلمہ بھی مت کہہ۔
اُسی میں لکھا ہے کہ معمر کہتے ہیں کہ طاؤس جو اعلیٰ درجہ کے تابعی ہیں ،بیٹھے تھے اور اُن کے پاس اُن کے فرزند بھی تھے ، اتنے میں ایک شخص معتزلی آیا اور کسی مسئلہ میں گفتگو شروع کی، طاؤسؒ نے اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں رکھ لیں اور فرزند سے کہا کہ تم بھی کانوں میں اُنگلیاں رکھ لو تاکہ اُس کی بات سننے میں نہ آئے کیونکہ یہ دل ضعیف ہے پھر کہا اے فرزند خوب زور سے کان بند کرلو اور برابر یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اُٹھ کر چلا گیا۔اگرچہ
ظاہراً یہ حرکت ہمارے زمانہ کے لحاظ سے بدنما معلوم ہوتی ہے مگر چونکہ اُن حضرات کو خوف خدا بیحد تھا اور دین کی قدر تھی وہ خیال کرتے تھے کہ عقلی باتوں کو عقل جلد قبول کرلیتی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بات دل میں جم جائے یا دل کا میلان بھی ہوجائے ، جس پر خدا ئے تعالیٰ مطلع ہوتاہے ۔
اُسی میں لکھا ہے کہ عیٰسی بن علی الضبیؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص ہمارے ساتھ ابراہیم کے یہاں جو تابعی تھے جایا کرتا تھا ، ابراہیمؒ کو خبر ملی کہ وہ شخص فرقہ مرجیہ میں شامل ہوا ہے ، اُنہوں نے اُس سے فرمایا :اب جو تم ہمارے یہاں سے جاتے ہو پھر ہمارے یہاں نہ آنا، فرقہ مرجیہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن شریف میں عذاب کی آیتیں فقط دھمکا نے کے لئے ہیں ورنہ جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کرلیا وہ قطعی جنتی ہے،چاہے نماز وغیرہ پڑھے یا نہ پڑھے اور اُس کے گناہ کچھ نہیں لکھے جاویں گے بلکہ نیکیاں لکھی جائیں گی ۔
اُسی میں لکھا ہے کہ محمدابن داؤد الحداد کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ابن عیینہؒ سے کہا کہ ابراہیم بن یحییٰ ، تقدیر کے معاملہ میں کلام کرتا ہے ۔ فرمایا کہ لوگوں کو اُس کے حال سے ہوشیار کر دو اور اپنے رب سے عافیت مانگو ۔ ہم کو دین کی اصلی صورت جو نظر آ رہی ہے‘ سو صحابہ اور تابعین ہی کی ان احتیاطوں کا نتیجہ ہے ،ورنہ اہلِ ہوا اور بدعـتیـوںکے خیالات ، اگر اس وقت سے روایتوں میں شامل ہو جاتے تو یہ بھی معلوم نہ ہوتاکہ اصل دین کیا تھا اور کیا ہوگیا ۔
مولوی شمس العلماء صاحب نے سیرۃ النعمان میں مقدمہ صحیح مسلم سے لکھا ہے کہ بشر عدوی ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور حدیث بیان کرنی شروع کی ، انہوں نے کچھ خیال نہ کیا۔ بشر نے کہا: ابن عباس !میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہا ہوں آپ سنتے نہیں؟ فرمایا ایک زمانہ میں ہمارا یہ حال تھا کہ کسی کو قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے سنتے تو فوراً ہماری نگاہیں اُٹھ جاتی تھیں لیکن جب سے لوگوں نے نیک و بد میں تمیز نہیں رکھی ، ہم صرف اُن حدیثوں
کو سنتے ہیںجن کو ہم خود جانتے ہیں ۔ غرضکہ اُس زمانہ میں صحیح حدیثیں محفوظ تھیں اِس لئے تقریباً کل مقتدا اساتذہ متدین تھے اوراحادیث کے لینے میں احتیاطیں زائد کی جاتی تھیں ۔
امام سخاویؒ کے قول سے ابھی معلوم ہوا کہ یہ وہی زمانہ ہے جس کے متصل امام ابو حنیفہؒ ہیں خوش قسمتی سے آپ کو تدوین فقہ کے وقت نہایت آسانی سے صحیح صحیح حدیثیں مل گئیں ۔ جس میں موضوع ہونے کا احتمال اگر نکالا بھی جائے تو بہت سے قرائن سے رد ہوسکتا ہے ۔
اِس کے بعد جب تدین کم ہوتاگیا اور کذاب اور وضّاع ، نئی نئی باتیں بنانے لگے جس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث شریف میں دی ہے ’’ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہقال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکون فی اٰخر الزمان دجالون کذابون یاتونکم من الاحادیث بما لم تسمعوا انتم و لا آباؤکم فایّاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم رواہ مسلم‘‘ یعنی فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ آخر زمانہ میں دجال اور کذاب ہوں گے ، ایسی ایسی حدیثیں بیان کریں گے کہ نہ تم نے (اے امتیو) سنیں ، نہ تمہارے آباء و اجداد نے ،سو اُن سے بہت بچو، اُن کو نزدیک نہ آنے دو ، کہیں وہ تم کو گمراہ نہ کر دیں ،اور فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔ اِس پیشن گوئی کے ظہور کی ابتدا اِسی زمانہ میں ہوچکی تھی اس لئے اُس زمانہ کے محدثین کو بڑی بڑی محنتیں اٹھانی پڑیں ۔ جس قدر انہوں نے موضوعات کے رواج دینے کی فکریں کیں محدثین نے احتیاط سے اُن کا مقابلہ کیا ، مثلاً دیکھا کہ راویان حدیث کے احوال مختلف ہیں ۔ فن رجال مدون کر دیاجس میں ہر ایک راوی کی نسبت جو کچھ محدثین کے خیال تھے ، بیان کر دیئے تاکہ مشتبہ راویوں سے حدیث لینے میں احتیاط کی جائے ۔ بعـض محدثین ایسے بھی تھے کہ ضعفاء سے روایت کر کے اُن کے نام نہیں بتلاتے تھے جس کو تدلیس کہتے ہیں ایسے لوگوں کی تحقیق کر کے خاص اُن کے ناموں کی کتابیں لکھدیں جیسا کہ تدریب الراوی امام سیوطیؒ نے لکھا ہے ۔ اسی طرح بعض محدثین مستند تو تھے مگر آخر عمر میں اُن
کے حافظہ میں نقصان آگیا تھا اور بعض لوگ آخر عمر میں اُن سے پڑھ کر چاہتے تھے کہ اُن کے پہلے شاگردوں کے ساتھ مساوات حاصل کریں حالانکہ اُن کی حدیثوں میں ضعف ہوتا تھا ۔ اِس لئے محدثین نے تحقیق کر کے ایسے اساتذہ کے نام اور اُن کے اوائل و آخر کے شاگردوں کے نام اور اُن کے حالات کے کتابیں مدون کر دیں تاکہ لوگوں کو اُن اساتذہ کے ناموں سے دھوکا نہ ہووے ۔ غرضکہ کسی بات میں ذرا بھی شبہ ہوتا تو ایک جماعت متوجہ ہو کر اس قدر تحقیق کرتی کہ شبہ نام کو نہ رہنے پائے ، شدہ شدہ ان تحقیقوں سے فن حدیث کے سو فن ہوگئے ،چنانچہ شیخ الاسلام ابن حجرؒ نے النکت میں اور امام سیوطیؒ نے تدریب الراوی میں لکھا ہے کہ علم حدیث سو انواع پر مشتمل ہے ، ہر نوع ایک مستقل علم بن گئی ہے اگر کوئی طالب علم، ان علوم میں اپنی تمام عمر صرف کر ڈالے ، جب بھی اُن کی انتہا ء کو نہیں پہونچ سکتا ۔
مطلب یہ کہ ایک شخص ان تمام علوم حدیثیہّ کا جامع نہیں ہوسکتا اہل علم غور کرسکتے ہیں کہ سوائے حدیث شریف کے کونسا ایسا علم ہے کہ جس کے سو حصے اس غرض سے کئے گئے ہوں کہ ہر ایک حصہ کی طرف ایک جم غفیر علما ء کا متوجہ ہو کر ، اُس کی تحقیق اور تکمیل کر ے کیا یہ بات خیال میں آسکتی ہے کہ ہزاروں مستند علما ء نے جس کام میں اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا کیا وہ ایسا فضول اور بے اصل ہو سکتا ہے کہ اُن کی اوقات ضائع ہوئی یا اُن کی وہ کوشش اور جانفشانیاں بالکل فضول تھیں ۔ اب اگر کوئی اجنبی شخص ، جس کو فن حدیث سے کوئی تعلق نہ ہو چند مختلف ضعیف اقوال نقل کر کے اس فن کو بے اعتبار قرار دے تو کیا عقلاء اُس کی تصدیق کرسکتے ہیں؟ عقل کی رو سے تو ہرگز نہیں کرسکتے ۔ یہ تو کمال فخر کا موقع تھا کہ اپنے اسلاف کے کارنامے پیش کر کے اوروں سے پوچھتے کہ کوئی اُمت ایسی بھی ہے کہ اپنے نبی کے اقوال اور افعال اور دین کی باتوں کو ایسی جانفشانیوں سے محفوظ رکھا ہو افسوس ہے کہ اُمت کے منتخب افراد نے جو اپنی گراں بہا عمریں صرف کر کے قابل افتخار خزانے ہمیں دے گئے ہیں ۔ اُس کا
شکریہ کیا جا رہا ہے کہ چند ناقصوں کی کارروائیاں پیش کر کے اُن کی تمام جانفشانیاں خاک میں ملائی جا رہی ہیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔