ابوبکروعمررضی اللہ عنہماکی سیِّدُنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ترغیب:
ایک دن حضرتِ سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرتِ سیِّدُناعمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرتِ سیِّدُنا سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد ِنبوی شریف علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں تشریف فرما تھے کہ حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر ِ خیر چل نکلا توحضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:”تمام معزّز ین نے پیغامِ نکاح عرض کیااور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے انکار کرتے ہوئے یہی ارشادفرمایا:”یہ معاملہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے۔” لیکن حضرتِ علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے پیغامِ نکاح عرض نہیں کیااور نہ ہی اس کا تذکرہ کیا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے غربت کے سبب ایسا نہیں کیا۔میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا معاملہ شاید اسی لئے روکا ہوا ہے۔” پھرحضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرتِ سیِّدُنا سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ”آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ ہم حضرتِ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم کے پاس چلیں اوران سے شہزادیئ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا معاملہ ذکرکریں، اگر انہوں نے تنگ دستی کی وجہ سے انکار کیا توہم ان کی مدد کریں گے۔” حضرتِ سیِّدُناسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: ”اے ابو بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو ا س کام کی توفیق عطا فرمائے۔” (آمین) پھر یہ سب مسجد ِنبوی شریف علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے نکل کرحضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم کی تلاش میں ان کی مسجدجا پہنچے لیکن انہیں وہاں نہ پایا۔( پھرجب پتہ چلاکہ ) حضرتِ سیِّدُنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت کسی انصاری کے باغ میں اجرت پر اونٹوں کے ذریعے پانی نکالنے میں مصروف ہیں تویہ تینوں صحابی ان کی جانب چل دیئے۔ جب حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے ان سب کو دیکھا توپوچھا:”کیا معاملہ ہے ؟”
حضرتِ سیِّدُناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”اے علی! (بات یہ ہے کہ) قریش کے معزّزین نے بنتِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے پیغامِ نکاح دیا لیکن آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے یہ کہہ کر لوٹا دیاکہ”یہ معاملہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے ۔”اور( ہم دیکھتے ہیں کہ) آپ ہر اچھی عادت سے کامل طور پر متَّصف ہیں اور حضور سیِّد ِ عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قرابت دار بھی ہیں توآپ کے لئے اس میں کیا رکاوٹ ہے۔مجھے امید ہے کہ اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ان کا معاملہ آپ کے لئے روکا ہوا ہے۔”راوی فرماتے ہیں: ”حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور عرض کی :”اے ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! آپ نے مجھے ایسے کام پر ابھارا ہے جو رکا ہوا تھا اور مجھے ایسے کام کی طرف متوجہ کیا جس سے میں غافل تھا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!مجھے شہزادئ سرورِکونین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم و رضی اللہ تعالیٰ عنہا پسند ہیں اور ایسے
رشتے کے لئے میرے جیسااور کوئی نہیں لیکن غربت نے مجھے اس سے روک رکھا ہے۔” حضرتِ سیِّدُناابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اے علی! ایسا نہ کہو ! اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے نزدیک دنیااور جو کچھ اس میں ہے ، اُڑتے غبار کی مانند ہے ۔”