آسمان پر نکاح اور فرشتوں کی بارات:
حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :” میں نے دیکھا کہ حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا چہرۂ انور خوشی ومسر ت سے کِھل اٹھا۔پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مسکرا کر حضرتِ علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم کے چہرے کو دیکھااور استفسار فرمایا:” اے علی!کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حق مہر ادا کر سکو ؟” حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے عرض کی:” اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر میری حالت پوشیدہ نہیں ، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جانتے ہیں کہ میں ایک زرہ ، تلوار اور پانی لانے والے ایک اونٹ کے علاوہ کسی چیز کا مالک نہیں۔” توشہنشاہِ خوش خِصال، پیکر ِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ارشاد فرمایا:” اپنی تلوار سے تو تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرو گے لہٰذا اس کے بغیر گزارہ نہیں اور اونٹ سے اپنے گھر والوں کے لئے پانی بھر کرلاؤ گے اور سفر میں بھی اس پر اپنا سامان لادو گے،لیکن زرہ کے بدلے میں، مَیں اپنی بیٹی کا نکاح تجھ سے کرتاہوں اورمیں تجھ سے خوش ہوں، اوراے علی !تجھے مبارک ہوکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے زمین پر فاطمہ سے تمہارا نکاح کرنے سے پہلے آسمان میں تم دونوں کا نکاح کر دیا ہے اور تیرے آنے سے پہلے آسمانی فرشتہ میرے پاس حاضر ہوا جس کو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اس کے کئی چہرے اور پَر تھے،اس نے آکر عرض کی : ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مبارک مِلن اور پاکیزہ نسل کی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوبشارت ہو۔”
میں نے پوچھا :”اے فرشتے! کیا کہہ رہے ہو؟”اس نے جواب دیا: ”یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ! میں سبطائیل ہوں اور عرش کے ایک پائے پر مقرّر ہوں، میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں گزارش کی کہ وہ مجھ کو اجازت دے کہ میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بشارت سناؤں اور حضرتِ جبرائیل علیہ السلام بھی میرے پیچھے پیچھے فضل وکرمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی خبرلے کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس پہنچنے والے ہیں ۔”سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باذنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” ابھی اس فرشتے نے اپنی بات بھی پوری نہ کی تھی کہ
حضرتِ جبرائیلِ امین علیہ السلام نے آکر سلام کیا اور ایک سفید ریشم کا ٹکڑا میرے ہاتھوں پر رکھ دیا جس میں دو سطریں نور کے ساتھ لکھی ہوئی تھیں۔”میں نے پوچھا :” اے میرے دوست جبرائيل(علیہ السلام)! یہ خط کیسا ہے؟”تو انہوں نے بتایا:” یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دنیا پرنظرِ رحمت فرمائی اوراپنی رسالت کے لئے مخلوق میں سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا انتخاب فرمایا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے ایک حبیب ، بھائی ، دوست اور وزیرچن کر اس کے ساتھ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بیٹی حضر تِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح فرما دیا۔”میں نے پوچھا: ” اے جبریل علیہ السلام ! ذرایہ تو بتاؤکہ یہ میرا حبیب کون ہے؟”تو اس نے جواب دیا: ”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا چچا زاد اور دینی بھائی حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ساری جنتوں اور حوروں کو آراستہ پیراستہ ہونے ، شجرِ طُوبیٰ کو زیورات سے مزین ہونے اور ملائکہ کو چوتھے آسمان میں بیت المعمور کے پاس جمع ہونے کا حکم دیا ہے، اوررضوانِ جنت نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے بیت ُ المعمور کے دروازے پر منبرِکرامت رکھ دیا ہے۔ یہ وہی منبر ہے کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو تمام اشیاء کے نام سکھائے تھے تو انہوں نے اس پر خطبہ دیا تھا۔
پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے اس منبر پر راحیل نامی فرشتے نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شایانِ شان اس کی حمد و ثناء کی توآسمان فرحت وسرور سے جھوم اُٹھا۔” پھرحضرتِ جبرا ئيل علیہ السلام نے مزید عرض کی : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے وحی فرمائی کہ ”میں نے اپنے محبوب بندے علی کا نکاح اپنی محبوب بندی اور اپنے رسول کی بیٹی فاطمہ سے کر دیا ہے، تم ان کا عقد ِ نکاح کردو۔”پس میں نے عقد ِ نکاح کر دیا اور اس پر فرشتوں کو گواہ بنایااور ان کی گواہی اس ریشم کے ٹکڑے میں لکھی ہوئی ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ خط آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے حضور پیش کر وں اور اس پر سفید کستوری کی مہر لگا کر داروغۂ جنت ،رضوان کے حوالے کر دوں۔ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ملائکہ کو اس نکاح پر گواہ بنایا تو شجرِ طوبیٰ کو حکم دیا کہ وہ اپنے زیورات بکھیرے۔ جب اس نے زیورات کی بوچھاڑ کی تو ملائکہ اور حُوروں نے سب زیورات چن لئے اورحوریں قیامت تک یہ زیورات ایک دوسرے کو تحفے میں دیتی رہیں گی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے یہ عرض کروں کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم زمین پر حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرتِ علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم سے کر دیں اور مجھے یہ بھی حکم ملا ہے کہ حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دو ایسے شہزادوں کی بشارت دوں جو انتہائی ستھرے ،عمدہ خصائل وفضائل کے حامل ،پاکیزہ فطرت اور دونوں جہاں میں بھلائی والے ہوں گے۔”مکی مدنی سلطان، رحمتِ عالمیان ،سردارِدوجہان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اے علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! ابھی فرشتہ بلندنہ ہواتھا کہ تم نے دروازے پر دستک دے دی۔میں تمہارے متعلق حکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ نافذ کر رہا ہوں، تم مسجد میں پہنچ جاؤ، میں بھی آرہا ہوں۔میں لوگوں کی موجودگی میں تمہارا نکاح کر وں گا اور تمہارے وہ
فضائل بیان کروں گا جن سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔”
حضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں:” میں بارگاہ ِرِسالت علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے نکلا تو اتنی جلدی میں تھا کہ خوشی و مسرت سے اپنا ہوش بھی نہ تھا۔ راستے میں حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق اورحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا :” اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! خیریت ہے، کیا ہواہے؟کہ تم اتنی جلدی میں ہو۔”تو میں نے بتایا : ” رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میرا نکاح اپنی شہزادی سے کر دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرا نکاح آسمانوں میں کیا ہے ،اب حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میرے پیچھے پیچھے مسجد میں تشریف لا کر اس کا اعلان فرمائیں گے۔”وہ دونوں بھی یہ سن کر خوش ہو گئے اور مسجد کی طرف چل دئیے۔بخداعَزَّوَجَلَّ! جب رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہمارے پاس تشریف لائے تو ان کا چہرہ خوشی سے دَمَک رہاتھا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:” اے بلا ل (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! مہاجرین وانصار کو جمع کرو ۔”حضرتِ سیِّدُنابلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحکمِ نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لے گئے۔ امام الانبیاء صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنے منبرِ اقدس کے پاس تشریف فرما ہو گئے یہاں تک کہ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے منبرِ اقدس پر جلوہ افروز ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد و ثناء کی اور ارشاد فرمایا:” اے مسلمانو!ابھی ابھی حضر تِ جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے اور یہ خبر دی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بیت المعمو ر کے پاس ملائکہ کو گواہ بنا کر میری بیٹی فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کا نکاح علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے کر دیا ہے،اور مجھے بھی حکم فرمایا ہے کہ میں زمین پران کانکاح کر دوں۔ میں تم سب کوگواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے کر دیا ہے ۔”پھر حضور نبئ اکرم، نورِ مجسم ،شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم منبر سے نیچے تشریف لے آئے اورحضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم سے ارشاد فرمایا: ”اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! کھڑے ہو کرخطبۂ نکاح پڑھو۔ ”
خطبۂ نکاح:
حضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور یہ خطبہ پڑھا :
”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَشُکْرًا لِاَنْعُمِہٖ وَ اَیَادِیْہٖ اَشْھَدُ اَنْ لَّا ۤاِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَلَا شَبِیْہَ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ نَبِیُّہُ الْنَبِیْہُ وَرَسُوْلُہُ الْوجِیْہُ وَصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَ اَزْوَاجِہٖ وَ بَنِیْہِ صَلَاۃً دَآئِمَۃً تُرْضِیْہِ وَبَعْدُ!
یعنی سب تعریفیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں اور اس کے انعامات واحسانات پر اس کا شکر ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک ومثل نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت سیِّدُنا محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں، اس کے معزز نبی اور عظیم ُ الشان رسول ہیں،ان پر اور ان کی آل واصحاب، ازواجِ مطہّرات اوراولادِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
ایسی دائمی رحمت ہوجو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو خوش کر دے (آمین)۔” اس کے بعد فرمایا: ”نکاح اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر عمل ہے اور اس نے اس کی اجازت دی ہے، رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی شہزادی حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح مجھ سے کر دیا ہے اور میری اس زرہ کو بطورِ حق مہر مقرر فرمایا ہے،میں اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس پر راضی ہیں،تم لوگ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے پوچھ لو اور گواہ بن جاؤ۔”توسب مسلمانوں نے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے جوڑے میں برکت عطا فرمائے اور تمہیں اتفاق عطا فرمائے۔” پھر حضورنبئ پاک، صاحب ِ لولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنی ازواجِ مطہّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن کے پاس تشریف لائے اور انہیں حضرتِ سیِّدَتُنافاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح پر دف بجانے کا حکم دیاتو انہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس دف بجایا۔”(۱)
1۔۔۔۔۔۔شادی میں دف بجانے کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت، امام اہل سنت، مجدد دین وملت، الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ”دف کہ بلا جلاجل یعنی بغیر جھانجھ کا ہو اور تال سَم(یعنی سُر) کی رعایت سے نہ بجایا جائے اور بجانے والے نہ مرد ہوں نہ ذی عزت عورتیں، بلکہ کنیزیں یا ایسی کم حیثیت عورتیں۔ اور وہ غیر محلِ فتنہ میں بجائیں تو نہ صرف جائز بلکہ مستحب ومندوب ہے۔ حدیث میں مشروط دف بجانے کا حکم دیا گیا اور اس کی تمام قیود کو فتاوی شامی وغیرہ میں ذکر کر دیا گیا۔” (فتاوی رضویہ،ج۲۱،ص۶۴۳)