کرامات اولیاء اللہ :

کرامات اولیاء اللہ :

بات یہ ہے کہ مسلمان شخص خدا اور رسول کی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے تووہ خدا ے تعالیٰ کے نزدیک مکرم یعنی صاحب کرامت ہو تا ہے چنانچہ ارشادہے ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم یعنی : خداے تعالیٰ کے نزدیک تم میں کا وہی شخص زیادہ کرامت والاہے جو زیادہ تر متقی ہو ۔ جب تویٰ کی وجہ سے کوئی شخص خدا ے تعالیٰ کے نزدیک با کرامت ہو جائے تو بحسب مقتضائے وقت و صلاحیت اس کو تصرف کی اجازت دی جا تی ہے ، جس سے لوگوں کو بھی معلوم ہو جا تا ہے کہ یہ حاصت کرامت ہے ۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ کرامت اس فعل کانام نہیں ہے جو دلی سے بطور خرق عادت صادر ہو تا ہے بلکہ وہ فعل اس امر پر قرینہ ہے کہ وہ شخص عند اللہ مکرم و با کرا مت ہے ، جو فعل بالذات کرامت پر دال ہے وہ تقویٰ ہے ۔ اگر خداے تعالیٰ نے کسی کو صفت تقویٰ عنایت کی ہے تو یقینا سمجھا جائے گا کہ وہ عند اللہ مکرم یعنی با کرامت ہے اور دوسرے افعال و خوراق عادات بالواسطہ اور با التبع کرامت سمجھے جائیں گے،یعنی تقویٰ کی وجہ سے وہ تصرفات ہو ں گے ۔
شیخ الا سلام سبکیؒ ؒ نے طبقات شافعیہ میں لکھاہے کہ ابوعلی رو دبار ی کہتے ہیں کہ ابو العباس رقی سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ : میں ایک بار میں ابو تراب نخشبی ؒ کا ہم سفر تھا،مکہ معظمہ کے راستہ میں مجھ پر تشنگی غالب ہوئی ،شیخ سے عرض کی انہوں نے زمین پر پائو ںمارا جس سے نہایت سرد و شیریں پانی کا چشمہ جا ری ہو گیا ،میں نے کہا میرا جی چاہتا ہے کہ ایسا لطیف پانی عمدہ پیالہ میں پیوں ! آپ نے زمین پر ہا تھ مارا نہایت شفاف بلو رین پیالہ بر آمد ہوا ،چنانچہ مکہ معظمہ تک وہ پیالہ ہما رے ساتھ رہا ،ایک روز انہوں نے مجھے سے فرمایا کہ : تمہارے اصحاب ایسے امورمیں کیا کہتے ہیں ؟ میںنے کہا : میں نے تو کسی کو کرامتوں کا انکا ر کر تے نہیں دیکھا ! فرمایا یہ سچ ہے کہ کرامت کا منکر کافر ہے ، مگر میں نے جو تم سے پوچھا مقصود ا س سے یہ تھا کہ جس کایہ حال ہوا اس کی نسبت کیا کہتے ہیں ؟ میںنے کہا :میرے خیا ل میں اس وقت ا ن کا کوئی قول نہیں ، فرمایا :تمہارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ جس کو یہ تصرف دیا جا تا ہے وہ خدا ے تعالیٰ کی جانب سے اس کے حق میں خدا ع ہے !مگر یہ قول عموماً درست نہیں ،البتہ خداع اس کے حق ہے جس کا مقصود ِاصلی صرف خوراق عادات کا اظہار ہو ،اورجس کا یہ خیال نہ ہوتو وہ ربا نیین میں سے ہے ۔ امام ابن تقی الدین سبکیؒ نے ا س کے بعد مسئلہ کرامت میں نہایت مبسوط بحث کی ہے اس میں سے بحسب ضروریات یہاں لکھا جاتا ہے :
بعض علماء نے کرامت کا بالکل ہی انکار کر دیا ، اور بعض کہتے ہیں کہ کرامت حد خرق عادت تک نہیں پہونچ سکتی ورنہ معجزہ کی مشابہ ہوجائے گی اور نبی اور ولی میں اشتباہ ہو جا ئے گا ۔قدریہ کرامت کا بالکلیہ انکار کرتے ہیں ،ان کے شبہات یہ ہیں کہ اگر کرامت جائز رکھی جائے تو سفسطہ کی نوبت پہونچ جائے گی اور یہ کہنا پڑے گا کہ ممکن ہے کہ پہاڑ سو نا ہو،اور سمندر خون ہو جائے ،اور گھر کے برتن بڑے بڑے فاضل امام ہو جائیں ،اورنیز وہ معجزہ کے مشابہ ہوگی جس سے معجزہ کی دلالت جو نبوت پر ہوتی ہے فوت ہوجائے گی ،اور نیز اگر ولی سے خوراق عادات صادر ہو تی ہیں او رکوئی نبی اس وقت مبعوث ہوتو چونکہ ولی کے حق میں خوراق عادات عادی امور ہوگئے ہیں اس لئے اس کے نزدیک نبی کی نبوت کو تصدیق کرنے کے لئے کوئی دلیل نہ ہوگی۔اور ایک شبہ یہ بھی ہے کہ جب کسی شخص صالح کے لئے کرامت جائز ہ وتو ممکن ہے کہ صالح بہت سے ہوں اورجب یہ سب خواراق عادات ظاہر کریں تووہ عادت ہوگی،اس کے بعد خوراق عادات نبوت پردلیل نہیں ہو سکتیں ۔اور ان کا یہ بھی استدلال ہے کہ اگر کرامت کسی کو دی جائے تو صحابہ ؓ زیادہ تراس کے مسحتق تھے حالانکہ ان کے ہاتھ پر کبھی کرامت ظاہر نہ ہوئی ۔
یہ قدر یہ کہ شبہات ہیں ۔ اس کے جوابات امام موصوف نے نہایت تفصیل سے دئے ہیں جن کاذکر موجب تطویل ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو ان

شبہات میں اکثر کا مدار امکان پرہے ، مگر یہ دیکھا جائے کہ ایسا امکان بھی مضر ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ہر ایماندار اس کی تصدیق کر تا ہے کہ خدا ے تعالیٰ نے ازل ہی میں فیصلہ فرما دیا کہ عالم میں کس قسم کی کتنی چیزیں پیدا کی جائیں گی ،اور ان کے تفصیلی حالات کیاہوں گے ،اور ہر ہر آن میں جو عوارض ہر چیز پرآنے والے ہیں سب متعین ہوگئے ، جس زمانے میں جس چیز پر جو حالت ہوتی ہے وہ ازل میں حق تعالیٰ کے پیش نظر ہوچکی اور ابد تک علم ایک حالت پرہے ، ارشاد ہے ما یبد ل القول الدی مثلاً اگر زید کو ازل میں عالم کیا ہے تو کوئی اس کو جاہل بنا نہیں سکتا ،اور اگر جاہل کیا ہے تو کوئی اس کو عالم بنا نہیں سکتا ۔ تقدیر کے مسئلہ کو تو ہم نے بفضلہ تعالیٰ مقاصد الاسلام کے حصہ ء سوم میں حکمت جدیدہ کے طریقہ سے بھی ثابت کیا ہے ۔
غرضکہ جب ازل سے ابد تک موجود ہونے والی ہر چیز خدے تعالیٰ کے علم میں اس طورپر ممتاز و مشخص ہے کہ ہر آن میںوہ کن اوصاف سے متصف ہوگی تو یہ احتمال ہی نہ رہا کہ ان معلومات الٰہیہ کے سوا کوئی چیز وجود میں آئے گی یا ان میں کسی قسم کا تغیر و تبدل ہو گا ۔ اس صورت میں جو چیز وجود میں آتی ہے ، وہ ضرور ’’واجب الوجود ‘‘ ہو گی ،لیکن وجوب ذاتی نہ ہوگا بلکہ لغیرہ ہوگا ، اب اگر اس کو ممکن کہیں توصرف اس کے مر تبہ ذات کا امکان مردا ہوگا ۔پھر قبیل وجود بھی اگر دیکھا جائے توچونکہ علم الٰہی میں اس کے تمام حالات و کیفیات معین ہوچکے ہیں کہ فلاں چیز جب وجود میں آئے گی تو وہ اس طورپر ہوگی تو ہاں بھی ایک جانب کی ترجیح ہو گی ، او رممکن کی جو دو (۲) جانب ہوتی ہیں اس میں دوسری جانب مرجوح ہو گئی جس کی ترجیح محال ہے تواس صورت میں جانب مرجوح کا محال ہونا ثابت ہے ، جس کامطلب یہ ہوا کہ عالم میں دوہی چیزیں ہیں : واجب ،یا ممتنع ۔ممکن کوئی چیز نہیں ۔
اب جو کہا جا تا ہے کہ ممکن ہے کہ کرامت سے ظروف فاضل بن جائیں ،اور یہ ہو ،اوروہ ہو ،تو یہ صرف احتمال ہی احتمال ہے ۔ممکن کوئی چیز نہیں ۔ خدا ے تعالیٰ نے جس ولی کے ہاتھ سے جو کام ہونا ازل میں معین فرما دیا ہے ا س کا وجود واجب ہے ، اور جو اس کے خلاف ہے اس کاوجود ممتنع ۔ ولی کا ارادہ ایسی چیز سے متعلق ہو ہی نہیں سکتا جو خلاف مشیت الٰہی ہو ۔
حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہم ان قلوبنا و نوا صینا و جوارحنا بیدک لم تملکنا منہا شیئاً یعنی :یا اللہ ہمارے دل اور پیشانی کے بال اور کل جوراح تیرے ہاتھ میں ہیں تونے ان میں سے کسی چیز کا ہمیں مالک نہیں بنایا ۔اس صورت میں امکانی احتمالات سب باطل ہوگئے ۔ اور اگر پہاڑ کا سونا کسی کی کرامت سے ہونا علم الٰہی میں ہے تو وہ ضرور ہوگا ،کیا کوئی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ خدا ے تعالیٰ پہاڑ کو سونا نہیں بنا سکتا ؟ ہر گز نہیں !پھر کرامت سے پہاڑ سونا بن جائے تو کیاتعجب ہے ، اگر اسی کا نام سفسطہ ہے تو روزانہ لاکھوں سفسطے وجود میں آتے ہیں ۔دیکھئے نبا تات کا انسان اور امام و فاضل بننا روزانہ برابر دیکھا جا تا ہے جس کاحال ہم نے کتاب العقل میں تفصیل سے لکھا ہے ۔
اب رہی یہ بات کہ نبی اور ولی میں فرق نہ رہے گا ،تو اس کا منشا یہ ہے کہ معترض نے ولی کو فاسق سمجھا ہے کہ وہ کرامتیں دکھلا کر لوگوں کو نبی کی طرف سے اشتباہ میں ڈال دے گا تاکہ نبی کی نبوت ثابت نہ ہو نے پائے !! اگر ایسا ولی فرض کیا جائے تو وہ واقع میں ولی نہیں ہو سکتا ،اس کے حسب حال یہ شعر ہے :
کار شیطان می کند نامش ولی
گر ولی اینست لعنت بر ولی
اور اگر ولی ایسا شخص ہیں جو سرموخداے تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہ کرے تو اور اگر نبی کے ساتھ رہ کر بھی کرا متیں ظاہر کر ے تو اس سے نبی کی نبوت کی تائید ہو گی کیونکہ وہ لوگوں سے صاف کہا کرے گا میں ان کا ایک ادنیٰ غلام ہو ںاور ان ہی کی اتباع کی بدولت مجھے یہ مرتبہ حاصل ہوا ۔اس سے تو بجائے اس کے کہ نبوت میں اشتباہ واقع ہو لو گوں کو ایمان لانے کی ترغیب ہو گی ۔
او ر یہ کہاجاتا ہے کہ معجزہ او رکرامت میں فرق نہ ہوگا ،یہ درست ہے ، کیونکہ خرق عادت خواہ نبی سے صادر ہو یا ولی سے بغیر اجاز ت الٰہی ممکن نہیں ، مگرجس کے ہاتھ پر خرق عادت ظاہر ہوئی وہ نبی تھے تو کہہ دیتے تھے کہ ہم نبی ہیںاور اس پر ہمیں یہ نشانی دی گئی ہے اگر تمہیں شک ہو تو مقابل ہ وکر یہی
کام کر دکھا ئو ۔اس دعوے او ردلیل کے بعد اہل انصاف ان کی نبوت کوتسلیم کر تے گئے ۔ او راگر وہ یعنی صاحب خرق عادت ولی ہوں تو کبھی اس قسم کا دعویٰ نہیں کر سکتے ،اگربفرض محال نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر نے والا یقینا کافرہے اور وہ کا فروں میں بھی اعلی درجہ کا ۔اسی کو دیکھ لیجئے کہ اگر بادشاہ کسی کو اپنی طرف سے کسی ملک کا حاکم بنا دے اوراس کے ساتھ ایسی نشانی مثل پروانہ دے کہ کوئی دوسرا وہ نشانی نہیں لا سکتا تووہ حاکم بادشاہ کا مورد عنایات سمجھا جائے گا ،بخلاف اس کے اگر ایک شخص اسی قسم کی نشانی کسی ملک میں لے جا کر یہ دعویٰ کرے کہ بادشاہ نے مجھے حاکم بنا دیا ہے اور ایک جعلی نشانی بھی پیش کردے تو کیا ایسا شخص مور دعنایات شاہی ہو سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں !بلکہ اس جرم کی پاداش میں ایسی سخت سزا تجویز کی جا ئے گی جو معمولی جرائم کی سزاسے بد ر جہا زائد ہو ۔
اب غور کیجئے کہ نبوت سے بڑھ کر خدا ے تعالیٰ کے یہاں کو ئی مرتبہ اور عہدہ نہیں ۔ اگر کوئی شخص اپنی نام آوری یا متاع دنیوی حاصل کر نے کی غرض سے دعواے نبوت کرے اور اس پرجعلی نشا نیاں بھی پیش کرے تو کیا ایسا شخص خدا ے تعالیٰ کے نزدیک معمولی کافروں میں ہوگا ؟ میری دانست میں تووہ فرعون و شداد سے بھی بدتر ہوگا ،کیونکہ ان کو خدا ے تعالیٰ نے بادشاہت دی تھی اس لئے انہوںنے اپنی وجاہت ظاہری رکھنے کی غرض سے نبیوں کا مقابلہ کیا ،بخلاف مدعیان نبوت کے کہ وجاہت پیدا کرنے وار دنیا حاصل کرنے کی غرض سے انہوں نے جھوٹ کہی اور جھوٹ بھی کیسی کہ خدا ے تعالیٰ پر تہمت لگا ئی کہ اس نے ہمیں بھیجا ہے ،اور اس جھوٹ کو باوقعت بنا نے کی غرض سے جعلی نشا نیاں بنائیں ،لوگوں کو فریب دے کر ان کا مال کھا یا ،پہلے سے جس نبی کی سلطنت قائم تھی بغا وت کرکے اس کو درہم و برہم کر دیا ، نبی ؐ اور اولیاء اللہ کو ایذائیں پونچا ئیںحق تعا لیٰ فرماتاہے ان الذین یؤذو ن اللہ و رسولہ العنہم اللہ فی الدنیا والآخرۃ و أ عد لہم عذاباً مہیناًیعنی : جو لوگ خدا و رسول کو ایذ دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت ہے اوران کے لئے خدا ے تعالیٰ نے عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔اس کے علاوہ مدعیان نبوت کو کیسی کیسی جعل سازیاں اور اقسام کے جرائم کر نے کی ضرورت ہو تی ہے !!
ہم نے ’’مفا تیح الاعلام ‘‘ میں مرزا صاحب قا دیانی کے تھوڑے سے حالات لکھے ہیں اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ مدعیان نبوت کو کیسی کیسی مصیبتوں میں مبتلاہونے کی ضرورت ہو تی ہے اور کیا کیا پاپڑ بیلنے پرتے ہیں ۔
او ریہ جو کہا گیا کہ اولیاء سے خوراق صادر ہو ں تووہ بوجہ عادت معجزہ کو معجزہ نہ سمجھیں گے ۔ اس موقعہ پر بھی ’’ولی‘‘ ایک معمولی شخص خیال کرلیا گیا کہ وہ کرامتوں میں ایسا مشعول ہو جاتا ہے کہ نہ اسے خدا سے کام نہ رسول سے !کیا ایسا شخص ممکن ہے کہ ولی ہو سکے ؟ اوراس کی کرامتیں بحال رہیں؟ ہرگز نہیں ! ولی تو وہ شخص ہوتا ہے کہ ہر آن میں اس کی توجہ خدا ے تعالیٰ کی طرف رہتی ہے ،بذریعہ الہام یا کشف یا رئو یائے صالحہ سے انہیں اطلاح ہوجا تی تھی کہ ’’فلاں نبی ہیں ان کی اتباع کرو ‘‘۔
پھر خوراق عادات کا امور عادیہ ہو جا نا جو خیال کیا گیا ہے وہ بھی بے اصل محض ہے ،کیونکہ اس کا کوئی قائل نہیں کہ جو کام اولیاء اللہ کر تے ہیں سب خوراق عادات ہو تے ہیں اس لئے خوراق کی ان کو عادت ہو جا تی ہے ۔ غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوکہ معاملہ بالعکس ہے ،اس لئے کہ ہرکام میں اولیاء اللہ کی نظر اس پررہتی ہے کہ معمولی کام جن کو ہرشخص اپنے اختیار ی سمجھتا ہے وہ بھی ہم سے وجود میں آتے ہیں یا نہیں ؟کیونکہ ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پرتو پورا ایمان ہے کہ اللہمان قلوبنا ونواصینا و جوارحنا بیدک لم تملکنامنہا شیئاً اگر کوئی اچھا کام ان سے صادر ہوگیا تو خدا ے تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ الٰہی اس کام کو صرف اپنے فضل وکرم سے تونے انجام دیا ورنہ ممکن نہ تھا کہ ہم اپنی ذاتی قوت سے اس کو پورا کر سکتے جیسا کہ ارشاد ہے لا حول ولا قوہ الا با للہ اب کہئے جولوگ معمولی کام کو بمنزلہ خرق عادت سمجھتے ہوں توخرق عادت کی ان کے نزدیک کیسی وقعت ہو گی۔غرض کہ یہ ممکن نہیں کہ نبی کا معجزہ ان کی نظروں میں بے وقعت ہو سکے ۔ اس تقریر کے بعد اہل انصاف غور فرما سکتے ہیں کہ جو دلائل عدم جو از خرق عادت پرقائم کئے گئے ہیں وہ کس درجہ کی ہیں ۔
اب رہی یہ بات کہ صحابہ ؓ سے کرامت کا صدور نہ ہوا ،سو وہ غلط ہے ،علامہ سبکی ؒ نے صحابہ کی کرامات کی ایک فہرست ہی لکھی ہے جس کو ہم بالاختصار نقل کر تے ہیں :
صدیق اکبر ؓ نے عائشہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا کہ : بیس وسق کھجور اس سال کے بارسے لے لینا !چند روز کے بعد فرمایا : اگر کھجور یں لے لی ہوںتو خیر ورنہ اب اس مال سے وارثوں کا تعلق ہو گیا ،اور صرف تمہارے دو بھائی ہیں اور دو بہنیں ۔ انہو ںنے کہا کہ میری بہن تو اسماء ایک ہی ہے! فرمایا دوسری حمل میں ہیں !چنانچہ وہ تولد ہوئیں۔دیکھئے حق تعالیٰ فرما تا ہے ان اللہ عندہ علم الساعۃ و ینزل الغیث ویعلم ما فی الا رحام ۔آیت شریف میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے جن کو خدا ے تعالیٰ ہی جانتا ہے ، منجملہ ان کے ایک ہے کہ حمل لڑکے کا ہے یا لڑکی کا ؟صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلا تکلف خبر دے دی کہ حمل میں لڑکی ہے اور وہ خبر صحیح ہی نکلی ،یہی کرامت ہے کہ خدا ے تعالیٰ ان کو و ہ علم دیا جو خو د اس کے ساتھ مختص تھا اور ابوبکر ؓ نیاپنی موت کی خبر دے دی کہ بہت قریب ہے یہاں تک کہ ورثہ کا حق مال سے متلعق کردیا !! ایسے موقعہ پر بعض لوگ ڈھٹائی سے کہ دیتے ہیںکہ اس قسم کے واقعات نص قرآن کے خلاف ہیں اس لئے ایسی روایات کو موضوع سمجھنا چاہئے ۔ ایسی جرأت کامنشا عدم غور و تدبیر اورلا علمی ہو کر تا ہے ان سے پوچھا جا ئے کہ خدا ے تعالیٰ نے یہ کب فرمایا کہ ان چیزوں کا علم میں کسی کو دیتا ہی نہیں ہوں !بے شک وہ جانتاہے ، اور اگر حق تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کو یہ علم عطاء فرمادے تو علم الٰہی میںکوئی نقصان لازم نہیں آتا ، کیونکہ دوسروں کا جاننا علم الٰہی کے منافی نہیں ۔ پھر اگر کسی کو علم ہو تا بھی ہے تو وہ صرف عطاء الٰہی ہے جس میں اہلیت اورلیاقت دیکھتا ہے اسے عطاء فرما تا ہے۔ارشاد ہے وماکان عطاء ربک محظورا ً غرضکہ ایسی روایتوں کو موضوع قراردینا کوئی علمی بات نہیں ۔
ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے یہاں دو شخصوں کا کھانا ہو تو اہل صفہ میں سے ایک شخص کو ، اور جس کے یہاں چار شخصوں کا کھانا ہو توپانچویں کو ساتھ لیجا کر کھانا کھلائیں !ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین شخصوں کو ساتھ لے گئے جب وہ ایک لقمہ اٹھاتے تو اتنا ہی کھا نا نیچے سے بڑھتا جارہا تھا یہاں تک کہ جب فارغ ہوئے تو کھانا جتنا رکھا گیا تھا اس سے سہ (۳) چند زیادہ ہو گیا ،چنانچہ سب گھر والوں نے سیر ہو کر کھایا اور حصے بانٹے ۔
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملک فارس پر کچھ لشکر ساریہ بن زنیم کے ہمراہ بھیجا،جب وہ شہر نہاو ند کے دروازہ پر پہونچے اور اس کا محاصرہ کرنا چاہا کفار کا لشکر کثیر آگیا اور سخت لڑائی ہوئی ،یہاں تک کہ قریب تھا کہ مسلمانوںکو ہزیمت ہوجائے ۔اس اس وقت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے تھے عین خطبہ میں با ٓواز بلند کہا یا سا ریۃ الجبل !یا سا ریۃ الجبل ! من استر عیٰ الذئب الغنم ففد ظلم یعنی اے ساریہ پہاڑ !اے ساریہ پہاڑ ! جو شخص بھیڑیے سے بکریاں چرانے کا کام لے اس نے ظلم کیا ۔اس کلام کوکل لشکر اسلام نے سنا او رکہنے لگے یہ تو امیر المؤ منین کی آواز ہے !غرضکہ فوراً پہاڑ کی پناہ میں چلے گئے اور اس کے بعد ان کی فتح ہو گئی ۔علی کرم اللہ وجہ بھی عمررضی اللہ عنہ کا خطبہ سن رہے تھے ،لوگوں نے کہا کہ امیر المؤمنین نے کیسی بات کہی !ہم کہا ں اور ساریہ کہاں ؟! علی ؓ نے فرمایا : عمر ؓ کے معاملہ میں دخل نہ دو، وہ جس کا م میں داخل ہو تے ہیں اس کو پورا کر تے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب لشکر کے لوگ واپس آئے تو وہ واقعہ بیان کیا کہ ہم لوگ امیر المؤمنین کی آواز سنتے ہی فوراً پہاڑ کی پناہ میں آگئے ۔اس سے ثابت ہوا کہ عمر ؓ کا وہ کلام بیکار نہ تھا ،بلکہ اس کی وجہ سے لشکر اسلام صرف تلف ہونے ہی سے نہیں بچا بلکہ اس کو فتح بھی نصیب ہوئی ۔ دیکھئے اس وقت نہا وند اور اس کے مضافات عمرؓ کے پیش نظر تھے اورکوئی حالت وہاں کی مخفی نہ تھی ،جس طرح افسر اعلیٰ مواقع جنگ کو دیکھ سمجھ کر فوج کو لڑا تے ہیں ،عمر ؓ نے بھی یہی کام کیا ۔اور نادربات یہ کہ ہزار ہا کوس پر آواز فوراً پہونچ گئی !
اگر صحابہ ؓ نفس کرامت کے قائل نہ ہو تے تو ضرور کہتے کہ آواز تو عمر ؓ کی ہے مگر یہ تو ممکن نہیں کہ ان کویہاں کے حالات پراطلاع ہو کیونکہ علم غیب خدا ے تعالیٰ کا خاصہ ہے اورا س کے خلاف خیال کرنا شرک فی العلم ہے ،پھر اپنی آواز کو ہزارہا کوس سے یہاں پہونچا نا شرک فی التصرف ہے ،اگر عمر ؓ کا
یہ کام سمجھا جائے تو ایمان جانے کی بات ہے اس لئے اس میں شک نہیں کہ شیطان نے ہمیں تباہ کر نے کی خاطر یہ جعل سازی کی ہے اس وقت ہمیں چاہئے کہ شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لئے پہاڑ سے بہت دور ہٹ جائیں ۔اگر اس قسم کے ’’موحدانہ خیال ‘‘ ان کو آجا تے تو سب غارت ہو گئے تھے ۔
زمانہء جاہلیت میں جب نیل کے جاری ہونے کا وقت آتا تو باکرہ لڑکی کو لباس فاخرہ او رزیورسے آراستہ و پیراستہ کر کے نیل میں ڈال دیتے ،جب عمر ؓ کے وقت میں مصر فتح ہوا تو لوگوں نے عمر ؓ و بن عاص سے جو وہاں کے حاکم تھے حسب عادت لڑکی کو نیل میں ڈالنے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ اسلام ایسے عادتوں کو ہدم کر دیتا ہے ۔تین مہینے تک نیل جا ری نہ ہوا ، یہاں تک کہ لوگوں نے قحط کی وجہ سے جلا وطن ہونے کا قصد کرلیا ۔عمر ؓ وبن عاص نے عمرؓ کو اس واقعہ کی اطلاع کی !آپ نے لکھا ہے کہ : تم نے بہت اچھا کیا کہ اجازت نہ دی ! اسلام پہلی باتوں کو ہدم کر دیتا ہے ۔پھر امیر اممؤ منین عمر ؓ نے ایک چٹھی نیل کے نام لکھی جس کا مطلب یہ تھا کہ : اے نیل اگر تو اپنی طرف سے جاری ہو ا کرتا ہے تو مت جا ری ہو ،اور اگر اللہ القھار تجھے جا ری کر تا ہے تو ہم اس سے درخواست کرتے ہیں کہ تجھے جا ری کردے !اور فرمایا کہ یہ چٹھی نیل میںڈال دو،چنانچہ ڈال دی گئی ،لوگوں نے جب صبح کو دیکھا تو سولہ (۱۶)ہاتھ بلند پانی اس میں جا ری تھا ۔
ایک شخص امیر المؤ منین عثمان ؓ کے پاس آرہا تھا ،راستہ میں ایک عورت پراس کی نظر پڑی خوب غور سے اس کو دیکھا ،جب حاضر خدمت ہوا تو آپ ؓ نے فرمایا بعض لوگ ایسے بھی یہاں آتے ہیں جن کی آنکھوں میں زنا کا اثر رہتا ہے! اس شخص نے کہا : کیا رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وحی اترا کر تی ہے ؟ فرمایا نہیں ،فراست سے ایسی باتیں معلوم ہوا کرتی ہیں ۔ یہ آپ کا ارشاد اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ اتقو افرسۃ المؤ من فانہ ینظر بنو راللہ یعنی ایماندار اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔جب مؤمن کامل اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہو تو اس سے کونسی شیز چھپ سکتی ہے۔ہمارے نور نظر کا جب یہ حال ہے کہ آسمان تک پہونچتا ہے تو خدا ے تعالیٰ کے نور کا کیا حا ل ہو ؟ اب غورکیجئے کہ جس کی رؤیت کا ایسا ذریعہ ہو تو کیا بعد و کثافت ایسے شخص کی رؤیت کے مانع ہو سکتی ہے ۔
ایک رات علی کرم اللہ وجہ اور دونوں صاحب زادے اپنے مکان میں تشریف رکھتے تھے کہ دوپہر رات کے بعد یہ اشعار آپ کو سنائی دیے :
یا من یجیب دعاء المضطرفی الظلم
یا کاشف الضر والبلویٰ مع السقم
قدنام و فد ک حول الیبت و انتبھوا
و عین جودک یا قیوم لم تنم
ھل لی بجو دک فضل العفو عن زللی
یا من الیہ رجاء الخلق فے الحرم
ان کان عفو ک لا یرجوہ ذوخطا ء
فمن یجود علیٰ العالمین بالنعم
اپنے صاحبزادے ؓ سے فرمایا : دیکھو یہ کون پڑھ رہاہے اور اس کو بلا لائو !وہ تشریف لے گئے اواس سے فرمایا کہ امیرالمؤمنین تمہیں بلاتے ہیں !وہ شخص اٹھا اوراپنی ایک جانب کو گھسیٹتا ہوا آیا ، آپ نے فرمایا میںنے اشعار سنے ، بیان کرو کہ واقعہ کیا ہے ؟کہا کہ میری حالت یہ تھی کہ ہمیشہ لہو لعب اور معصیت میں مشغول رہتا تھا اورمیرے والد مجھے وعظ ونصیحت کرتے تھے کہ دیکھو خدا ے تعالیٰ کو بڑی سطوت ہے اور وہ انتقام لینے والا ہے وہ ظالموں سے دور نہیں ! جب وہ حد سے زیادہ نصیحت کر نے لگے تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے انہیں مار پیٹا ! انہو ںنے ساتھ ہی قسم کھا ئی کہ : میں مکہ معظمہ کو جاکر بارگاہ
کبریانی میں اس باب میں فریاد کروں گا !چنانچہ وہ وہاں گئے اوردعاء شروع کی ،ہنوز ودعاء پوری نہیں ہوئی تھی کہ میرا ایک بازو سوکھ گیا ،جب مجھے یہ معلوم ہوا تو سخت ندامت ہوئی،اور میںنے ان کو خوشامد کرکے انہیں راضی کرلیا ،چنانچہ انہوںنے وعدہ کیا کہ : اب میں تیری صحت کے لئے اسی مقام میں دعاء کروں گا جہاں بدعاء کی تھی !چنانچہ میںنے ان کے لے اونٹنی کا انتطام کر دیا اور وہ سورا ہوئے ،قسمت وہ سے اونٹنی ان کو لے کر بھاگی اوروہ اس پر سے گر کرمر گئے ۔علی ؓنے پوچھا کہ : کیا فی الحقیقت وہ تجھ سے راضی ہوگئے تھے ؟کہا خدا کی قسم وہ راضی ہوگئے تھے !آپ یہ سن کر اٹھے اور چند رکعت نماز پڑھ کر آہستہ آہستہ بارگاہ کبریانی میںکچھ عرض کیا اس کے بعدفرمایا :اے مبارک اٹھ !وہ شخص اٹھ کر چلنے لگا اوروہ شکایت بالکل رفع ہوگئی۔پھر فرمایا : اگرتم اپنے باپ کے راضی ہونے پرقسم نہ کھا تے تو میں دعاء نہ کرتا ۔
اس واقعہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دو کر امتیں ثابت ہوئیں ،ایک یہ کہ حق تعالیٰ کے نزدیک آپ ایسے مکرم تھے کہ عرض کر نے کی دیر تھی کہ اس کی پذیر ارئی ہو گئی اور وہ اعضاء جو کہ مردہ ہو چکے تھے ان میں جان آگئی ۔دوسری کرامت یہ ہے کہ باوجود یکہ آپ ؓ کو عرب و عجم سلطنت حاصل تھی مگر حالت یہ کہ ایوان شاہی میں ایک بھی خدمت گا رنہ تھا ،چنانچہ دوپہر رات کے بعد جب آپ کو اس شخص کے بلانے کی ضرورت ہوئی تو اپنے صاحبزادے کو بھیجنا پڑا !اس ترک و تجرید سے بڑھ کر اورکیا کرامت ہوسکتی ہے ۔ ادنیٰ ادنیٰ حکام کے دو وازوں پرخدم و حشم ہوتے ہیں اور خلیفہِ رسول اللہ کی یہ حالت کہ نوکر تو درکنا ر ،وقت پر کھانا پیٹ بھر کر ملنا دشورا تھا ۔ جس کا حال ہم نے مقاصد الاسلام کے حصہء ششم میں لکھا ہے ۔
ظاہر بین لوگ ا س حالت کو کرامت نہیں سمجھ سکتے ،کیونکہ ان کے خیال میں تو جو کچھ وقعت ہے دنیا ہی کی ہے ،وہ فقر اختیاری کے مدارج کو کیا جانیں !اور دولت فقرا اختیاری ہرکسی کو نصیب نہیں ہو سکتی ہے ،یہ تو انہیں حضرات کے حصہ میں آتی ہے جو خداے تعالیٰ کے نزدیک مکرم ہیں ،قال اللہ تعالیٰ ان أکرمکم عند اللہ أتقا کم۔ اگر کرامت کے معنی خرق عادت کے لئے جائیں تووہ بھی فقرا اخیاری میں صادق آتے ہیں ۔ دیکھئے صرف اس خیال سے کہ ہر حالت میں خدا ے تعالیٰ اضطراری طورپر یا د آتے رہے ،تمام اسباب راحت و معیشت کو ترک کر دینا کیا ہر کسی کا کام ہے !!شاید لاکھوں میں کوئی ایک ہو جو خالصاً اللہ ایسا فقر اختیار کرے ۔
عموماً دیکھا جا تا ہے کہ اسباب معیشت فراہم کرنے کی فکر میں لوگ لگے رہتے ہیں ،اور اگر کوئی فقیر ہو بھی گیا تواس میں بھی یہی مقصود ہو تا ہے کہ بذریعہء فقر دنیا حاصل ہو ۔ اور اگر اس سے مال مقصود نہ بھی ہو تو جاہ مقصود ہو تی ہے ،چنانچہ جب کوئی معتقد بغرض استفادہ حاضر ہو تو دنیاسے اپنی بے تعلقی بیان ہو گی اور یہ چند حکایات نقل محفل ہوں گے کہ فلاں باشاہ یا امیر یا تجر و غیرہ نے ہمیں یہ دینا چاہا مگر ہم نے نہ لیا ہمیں دنیا داروں کی کچھ پروا نہیں ، ہم کو تو خاص خدا ے تعالیٰ سے تعلق ہے،ہمارے نزدیک بادشاہ اور غریب دونوں یکساں ہیں۔ پھر مرید وں میں ان حکایات کے چرچے ہو تے ہیں جس سے عام شہر ت ہو تی ہے ،اور ندر و نیاز کا بازار گرم ہو جاتاہے ۔
اب فقر اختیاری کا حال بھی تھوڑا سن لیجئے : فتوحات مکیہ کے ایک سو اٹھاونوی (۱۵۸)باب میں لکھا ہے کہ : اولیاء اللہ لذت کی چیزوں کو جن میں چکنا ئی اور طوبت ہو تی ہے چھوڑ دیتے ہیں ، اس وجہ سے کہ ان کے حبیب یعنی خدا ے تعالیٰ نے انہیں اس امر کی تکلیف دی ہے کہ راتوں کو اس کے روبرو کھڑے رہیں اور مناجات کریں ایسے وقت میں کہ لوگ نیند کی راحت میں ہوں ۔ انہوں نے دیکھا جب رطوبا ت جسم میں ہو تی ہیں توان کے بخارت دماغ کی طرف چڑھتے ہیں جن سے حواس میں تخدر اور سستی پیدا ہوکر نیند غالب ہو جا تی ہے جو مانع قیام لیل اور مناجات ہے ۔ پھر ان بخارات سے جسم میں قوت پیدا ہوتا ہے ،او وہ قوت اعضاء کو فضول کا موں میں لگا تی ہے جن سے ان کے محبوب نے انہیں روکا ہے ۔اس لئے وہ کھانا پانی چھوڑ دیتے ہیں،اور کھا تے ہیں تو اس اندازے سے کہ صرف ہلا کت سے بچ سکیں ۔ اس وجہ سے رطوبت ان کے بد ن میں کم ہو تی جا تی ہے اور تازگی و رونق نام کو نہیں رہتی ، او رجسم لاغر اور اعضاء میں استر خا ء ہو جا تا ہے اور نیند جا تی رہتی ہے اور بیداری قوت پا تی ہے جس سے ان کا مقصود جو قیام لیل ہے حاصل ہو تا ہے ۔اور ان کے اوصاف میں لکھا ہے کہ ان کی وحشت کا مونس اور ان کی بیما ریوں کا طبیب خدا ے تعالیٰ ہی ہوتا ہے ،ان کے ابد ان متوضع ،اوران
کے ہاتھ اسی کی طرف دراز ،ان کے دل اسی کی طرف مائل و مشتاق رہتے ہیں ، اگرا نست ہے تو اسی سے ، اوراگر خوف ہے تو اسی کا ۔ راحت ان سے مایوس ہے اور غفلت ان سے دور ، ہمیشہ وہ تضرع میں رہتے ہیں ،اور اپنی خطائوں سے معا فی مانگا کر تے ہیں ۔ اب کہئے کہ جن کی یہ حالت ہو ان کو تعلی اور خود ستائی سیکیا تعلق !! یہ بات ممکن ہے کہ أما بنعمۃ رب فحد ث کے لحاظ سے اظہار تشکر کر تے ہوں ، اگر فی الواقع یہی ہوتواس میں کسی کو کلام نہیں ،یہ معاملہ ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے ۔
مگر قابل غور یہ امر ہے کہ جس وقت کوئی ایسا شخص جس کی وقعت لوگوں کے درمیان ہو اس نے ان کی تعظیم و توقیر میں فرق کیا تو غصہ کی حالت میںاپنے استغناء کی حکا یتیں بیان کی جا تی ہیں ، اور دنیا داروں کی ذلت ایسے طورپر بیان کی جا تی ہے کہ وہ شرمندہوکر جبری تعظیم پر مجبور ہو تا ہے ،اور جب اچھی طر ح آئو بگھت کرنے لگے تو زمرہ معتقد ین میں شریک ہو کر ہر طرح اس کی حوصلہ افزائی ہو تی ہے ۔
الحاصل ’’فقر اختیاری ‘‘جن لوگوں کو حاصل ہے آج کل وہ بہت ہی شاذ و نادر ہیں ،باقی ان کے طفیلی ہیں ، لیکن کسی سے بد گمانی کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں :
ہر کرا جامہ پار سا بینی
پارسا دان و نیک مرد نگار
یہ کرامتِ فقر اختیاری کامل طورپر حضرت امام اولیاء علی کرم اللہ وجہہ کو حاصل تھی ۔
عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سخت قحط سالی ہوئی ، آپ حضرت عبا س ؓ کولے کر جنگل میںگئے اور بارگاہِ اِلٰہی میںدعاء کی کہ : الٰہی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کی برکت سے پانی برسا !ہنوز لوگ دعاء سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ابر نمو دار ہوا اور پانی برسنے لگا ،اور اتنا برسا کہ گھروں کو واپس ہونا مشکل ہوگیا ۔یہ حضرت عباس ؓ کی کرامت خدا ے تعالیٰ کے نزدیک تھی کہ ان کے وسیلہ سے دعاء کی گئی فوراً مقبول ہوگئی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار بارگاہِ کبریانی میں عرض کی تھی کہ سعد بن ابی وقاس کا تیر نشانہ پر لگا کرے او ر ان کی دعاء مقبول ہوا کرے ! اس کے بعدجو دعاء وہ کرتے قبول ہو جا تی ۔چنانچہ جنگ قادسیہ میں دمل کی وجہ سے وہ شریک نہ ہو سکے اوراپنے گھر کی چھت پر سے لڑائی کی حالت دیکھا کر تے ، کسی نے اس باب میں کچھ گفتگو کی اور وہ خبر آپؓ کو پہونچی ، آپ نے کہا : الٰہی اس کی زبان او رہاتھ سے ہمیں بچا ! فوراً وہ گونگا اور اس کا ہاتھ شل ہوگیا ۔
عمر ؓ نے کہا تھا کہ جس حاکم کی کوئی شکایت کرے میں اسے معزول کردوں گا!سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت ہوئی ،آپ نے انہیں معزول کرکے عمار بن یاسر کو ان کی جگہ بھیجا اورایک شخص کو روانہ کیا کہ اہل کوفہ سے ان کا حال دریافت کریں!چنانچہ انہوں نے کوفہ کی کل مساجد کے مصلیوں سے دریافت کیا ؟ سب نے ان کی تعریف و توصیف کی ،مگر مسجد نبوی عبس میں جب گئے اورلوگوں سے پوچھا کہنے لگا کہ : سعد ؓ لشکر کے ساتھ نہیں جا تے تھے او رتقسیم برابر نہیں کر تے تھے ،اوف فصل قضا یا میںعدل نہیں کرتے تھے ۔سعد ؓنے فرمایا :میں بھی تین دعائیں کر تا ہوں کہ الٰہی اگریہ شخص جھوٹا ہے تواس کی عمر دراز کر ،اور اس کے فقر و احتیاج کر دراز کر ،اور اس کو فتنوں میں مبتلاء کر ۔راوی حدیث کہتے ہیں کہ :میں نے اس کو دیکھا ہے کہ اتنا بوڑھا ہواکہ اس کی بھؤ ں کے بال آنکھوں پر گر تے تھے اور لونڈ یوں کو راستوں میں چھیڑ تا،اورجب اس سے پوچھا جا تا تو کہتا کہ یہ ایک فتنہ وا بتلاء ہے جو سعد ؓ کی بد عاء کا اثر ہے ۔
ابن عمر ؓ سفرمیں تھے کہ یکایک شور ہواکہ راستہ میں شیر بیٹھا ہے !جس کے خوف سے راستہ بند ہو گیا تھا ، آپ نے نزدیک جاکر اس سے کہا کہ : راستہ سے ہٹ جا !یہ سنتے ہی وہ دم ہلا کر چلا گیا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علاء ابن الحضرمی ؓ کو لشکر دے کر بھیجا ،سمندر بیچ میں حائل تھا ، مگر وہ دعاء کرتے ہوئے اس کے پانی پر سے گزر
گئے۔
خالدؓ نے زہر پی لیا مگر اس کا کچھ اثر نہ ہوا …یہ چند کرامات صحابہ کی تھیں،اس سے اتنا تو ثابت ہو گیا کہ صحابہ سے کرامات صادرہو تی تھیں ۔ اب رہی یہ بات کہ جس طرح ما بعد کے اولیاء اللہ کی کرامتیں بکثرت ہیں اتنی صحابہؓ کی نہیں ،تو اس کے اسباب امام سبکی ؒ نے لکھے ہیں ۔چونکہ یہاں صرف اثبات کرامات کا ذکر ہے اس لئے اسی پر اکتفاء کیا جا تا ہے ۔
اس تمام بحث کا ماحصل یہ ہے کہ خواہ معجزہ ہو، یا کرامت ،یا امور عادیہ ،سب کا وجود اسی طرح ہو تا ہے جیسا کہ خدا ے تعالیٰ چاہتا ہے ، مگر بعض اشیاء میں کسی قسم کی عادت ہے اور بعض میں کسی قسم کی ، عادت کے خلاف کوئی چیز دیکھی جا تی ہے تو خرق عدات سمجھی جا تی ہے اور لوگ تعجب کی نظر سے اس کودیکھتے ہیں ،حالانکہ وہی چیز بعض کے یہاں عادی ہو تی ہے ۔مثلاً آدمی سامنے رہ کر نظروں سے غائب ہو جا ئے تو خرق عادت سمجھی جائے گی ۔اور جن ہمیشہ نظروں سے غائب رہتے ہیں اور کبھی نظربھی نہیں آجا تے ہیں اور ان کے یہاں یہ امر قابل تعجب نہیں ،چنانچہ آکام المرجان میںاعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بجیل کے ایک شخص نے مجھ سے کہاکہ ایک لڑکی ہمارے یہاں تھی اس سے جن کو تعلق پیدا ہوا ، اس نے کہا کہ میں مکروہ سمجھتا ہوں کہ ناجائز تعلق اس سے رکھوں اس لئے اس کے ساتھ نکاح کر دیا جائے !چنانچہ نکاح کر دیا گیا ۔ ہم نے پوچھا کہ تم لوگوں کوکو نسا کھا نا اچھا معلوم ہو تا ہے ؟کہا : چاول ہم نے چاول پکا کر اس کی دعوت کی ،جب رکھا گیا تو صرف لقمے اٹھتے ہوئے نظر آتے تھے اورکوئی شخص نظر نہیں آتا تھا ۔ ایک روز وہ ظاہر ہوا ، ہم نے کہاکہ تم کس قسم کے لوگ ہو؟کہا : تم جیسی ہی ایک امت اور گروہ ہیں ، جس طرح تم میں قبائل ہوا کر تے ہیں ہم میں بھی ہیں ۔ ہم نے کہا: کیا اہل ہوا بھی تم میں ہیں ؟کہا :ہاں ہر فرقہ کے لوگ یعنی قدریہ ،شیعہ ،مرجیہ ، ہیں ۔ ہم نے پوچھا : تم کس فرقہ کے ہو ؟ کہا مرجیہ ،کہا : را فضیوں کو تم لوگ کیسے سمجھتے ہوں ؟کہا :سب سے بد تر ۔
اس سے کئی امور معلوم ہوئے : ان کا اشکال بدلنا ،اور صلاح و تقویٰ اور مذاہب کی پا بندی ، او رنگاہوں سے غائب رہنا، اور جب جی چاہے نظر آجانا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ا ن کا شکل بدلنا ایسا ہی ہے جیسے ہم لباس بلدتے ہیں ،مگرفرق اتنا ہے کہ لباس جزو بد ن نہیں بلکہ ہماری ذات سے منفک ہے ،اور ا ن کا جسم ان سے منفک نہیں ،اس صورت میںتشکل با شکال ان کی ماہیت کا خاصہ ،ذاتی ہوگا یا خاصہ ء لازمی۔جس طرح ہمارے لئے ’’ناطق ‘‘ہے ناطق کو ’’فصل ‘‘ قرارا دینے کی ضرورت اسی وجہ سے ہوئی تھی کہ جتنے انواع حیوانیت میں شریک ہیںسب سے انسان کو امتیاز ہوجائے ،اور فی الحقیقت ہر اعتبار سے یہی لفظ ممتاز کر نے والاتھا ۔اگر بات کرنے کی صفت لی جائے تو کسی جانور میں نہیں ۔اور اگر دریا بندگی معقولات خیال کی جائے تو یہ صفت بھی جس طرح آدمی میں ہے جانور میں نہیں ۔ آدمیوں کے افکار و خیالات سے کروڑ ہا کتابیں اور دفاتر بھرے ہوئے ہیں ،او رجانور کو ادراک ہے بھی تو محدود جو ان کی بسر بر داوقات کے لئے ہی کافی ہو سکے ۔
یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جنوں کی بھی تصانیف ہیں یا نہیں ؟ مگر امام شعرانی ؒ کے ایک رسالہ سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں ۔چنانچہ ا س میں لکھتے ہیں کہ : میرے پاس ایک کاغذ پہونچا جس میں لکھا تھا کہ ’’ہم لو گ بعض امور میں آپ لوگوں کے محتاج ہو تے ہیں اس لئے یہ چند سؤ الات جو لکھے گئے ہیں ان کے جوابات لکھ کر فلاں مقام میں رکھ دو ،اور جواب اگر نظم میں ہوتو مناسب ہے کیونکہ ہم لوگوں کوشعر کے ساتھ بالطبع مناسبت ہے ‘‘ چنانچہ امامؒ نے ایک رسالہ نظم میں لکھ کر رکھ دیا جس کو ایک بلی لے گئی ۔
آکام المرجان میں لکھا ہے کہ ابی ابن کعب ؓ سے روایت ہے کہ ایک قوم با رادۂ مکہ معظمہ نکلی ، کسی جنگل میں سب نے راستہ بھول کر اس قدر پریشانی اٹھائی کہ موت کی صورت آنکھوں میں پھر گئی اور کفن پہن کر لیٹ گئے ،ایک شخص جھاڑی میں سے نکلا اورکہا ، میں اُن جنوں میں سے ہوں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا تھا اور میں نے حضرت ؐ سے یہ بھی سنا ہے کہ المؤ من أ خو المؤ من و دلیلہ لا یخذ لہ یعنی ایک ایماندار دوسر ے ایماندار کا بھائی اور اس کو راہ دکھانے والا ہے برے وقت میں اس کو مخذول نہ کرے یعنی اس کی مدد کر نی چاہئے ۔اس کے بعدکہا کہ : پانی قریب ہے !
چنانچہ ان کو ہمرہ لے کر پانی پر پہونچا دیا ۔
اسی طرح او رکئی واقعات نقل کئے ہیں جن میں احا دیث شریفہ کا بیان کرنا اوران پر عمل کرنا مذکور ہے ۔غرضکہ اتنا ثابت ہے کہ جن میں علماء بھی ہوتے ہیں ،اور ’’قوت ِ فکر یہ ‘‘بھی ان کو دی گئی ہے ،اس صورت میں ان کو حیوان ناطق کہنے میںکوئی تامل نہیں ۔
حکماء نے دیکھا کہ اگر واقع میں جن کا وجود ہو بھی جیساکہ اکثر فلاسفہ اس کے قائل ہیں ، تو چونکہ وہ نظر نہیں آتے ان کی حقیقت او رماہیت کو نظر اندارز کر دیا ،ورنہ انسان کی ماہیت حیوان ناطق کبھی قررا نہ دیتے ۔ حکمت میں چونکہ امورِواقعیہ سے بقدر ِطاقت بشری بحث ہو تی ہے اور ’’جن‘‘ کا وجود خارجی ہے اور مشاہدات سے ثابت ہے جس کے علمائے یورپ بھی قائل ہو چکے اور ہوتے جا رہے ہیں اس لئے اب انسان کی ماہیت حیوان ناطق نہیں ہوسکتی ۔اب تک جو فصل کہی جا تی تھی یعنی ’’ناطق‘‘ وہ عرض عام ہوگئی ۔اور اب کوئی دوسر فصل مقرر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ فلسفہ تلا حق افکار سے کتنا ہی مستحکم بنا یا جائے قابل اعتماد نہیں ہوسکتا۔اور عقلاء نے جو حقائق اشیاء قررادیے ہیں وہ قطعی نہیں ہو سکتے ، ہر چیز کی حقیقت وہی جانتا ہے جس نے ان کو پیدا کیا ۔ اسی وجہ سے بزرگان دین کی دعاء ہے اللہم أرنا حقائق الا شیاء کما ہی ۔
آکام المرجان میں لکھا ہے کہ علامہ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر حنبلی نے لکھا ہے کہ :مکہ معظمہ میں جو نہر جا ری کی گئی ہے ا س کا واقعہ یہ ہے جس کی خبر مجھے امام حنا بلہ نے دی جن کے ہاتھ پرنہر کا کام انجام پا یا ، انہوں نے کہا : جب ایک خاص مقام تک نہر کھودی گئی تونہر کھودنے والا بے ہوش ہوگیا اور وہ کچھ بات نہیں کر سکتا تھا ، بہت دیر تک وہ اسی حالت میں پڑ ا رہا ، پھر غیب سے ایک آواز آئی کہ ’’اے مسلمانو ! تم کو حلال نہیں کہ ہم پرظلم کریں ‘‘،میںنے کہا : ہم نے کیا ظلم کیا ؟کہا : ہم یہاں کے رہنے والے ہیں ، خداکی قسم سوائے میرے یہاں کوئی مسلمان نہیں ،میںنے سب کفار کو زنجیروں میں جکڑ دیا ہے ورنہ وہ تمہیںسخت صدمہ پہونچا تے انہوں نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس زمین میں سے ہم تمہیں پانی ہرگز لے جانے نہ دیں گے جب تک کہ تم ہمارا حق نہ دو ۔ میں نے کہا :تمہا را حق کیا ہے؟ ایک بیل لو اور اس کو اعلیٰ درجہ کی زینت سے آراستہ کرکے مکہ میں سے اس کا جلوس نکال کر اس مقام تک پہونچا دو پھر ا س کو ذبح کر کے اس کا سراپا یہ اور خون برٔ عبدالصمد میں ڈال دو اور باقی کے تم مختار ہو ، اگر ایسانہ کر وگے تو ہم اس نہر کو کبھی جا ری ہونے نہ دیں گے ۔میں نے قبول کیا ،یہ کہتے ہی اس شخص کو جو بے ہوش پڑا تھا افاقہ ہو گیا ، دوسرے روز جب میں صبح کی نماز کے لئے مسجد کو جانے کی غرض سے اترا تو دیکھا کہ ایک شخص دروازہ پر کھڑا ہے اس نے مجھ سے کہا کہ : میںنے آج خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑے بیل کو اقسام کے زیور و لباس سے آراستہ و پیر استہ کر کے شان و شوکت سے خلیفہ کے گھر پرلے گئے اور وہ اس کو ہانکتا ہوا تجمل کے ساتھ مکہ معظمہ کے باہر لے گیا اور کس ذبح کرکے اس کا سر اور پائے کسی کنویں میںڈال دیے مجھے اس خواب سے تعجب ہوا ، اہل مکہ کے روادار لوگوںسے بیان کیا ،چنانچہ سب نے ایک بیل خرید کر اسے زینت ولباس سے آراستہ کیا اور تجمل سے اس مقام تک لے جاکر ذبح کیا اور جس کنویں کی نشاندھی کی گئی تھی اس میں اس کا سر اور پائے اور خون ڈال دیا گیا،اس وقت تک پانی کا پتہ نہ تھا ،خون وغیرہ کنویں میں ڈالتے ہی ایسا معلوم ہو اکہ کسی شخص نے میرا ہاتھ پکڑ کر ایک مقام پرکھڑا کر دیا ہے اور کہہ رہا ہے ، یہا ں کھو دو!جب وہاں کھودا گیا تو پانی اس کثرت سے نکلا کہ مجیں مارنے لگا اور ایک نہر نما یاں ہوئی جس میں سوار جاسکتا تھا ، ہم نے اس کو صاف کیا ، اس کثرت سے اس میں پانی جاری ہوا کہ اس کی آواز سنی جاتی تھی ، اور چارہی روز میں نہر مکہ معظمہ میں جا ری ہو گئی علامہ شمس الدین ؒ نے لکھا ہے کہ :یہ واقعہ نظیر ا س واقعہ کی ہے کہ ایک لڑکی زیور و لباس سے آراستہ کرکے نیل میں ،ڈالی جا تی تھی عمرؓ نے اس رسم کو بالکل موقوف فرمایا ۔اس واقعہ میں بھی کوئی عمری مشرب ہوتا جس سے شیطان ڈرتے تونہر جا ری ہو جا تی او رایک چڑیا کوبھی ذبح کرنے کی ضرورت نہ ہوتی ،لیکن ہر زمانہ کے لوگ جدا ہیں۔لکھا ہے کہ : اس واقعہ کو بیان کر نے والے نہایت سچے اور دیندار اور بڑے متدین شخص تھے جن کے صدق و دیانت پر تمام اہل شہر گواہی دیتے ہیں ۔
آکام المرجان میں اسی واقعہ میں لکھا ہے کہ وہب کہتے ہیں کہ :کسی خلیفہ نے چشمہ جا ری ہونے کے لئے جن کے لئے جانور ذبح کیا اور لوگوں کو
کھلا یا ،جب یہ خبر ابن شہاب ؒ کو پہنو نچی تو انہو ں نے کہا کہ : یہ ذبح کرنا اس کو حلال نہ تھا اور لوگوں کو جو کھلا یا اس کا کھا نا ان کو حلال نہ تھا ۔یہاں وما اہل بہ لغیر اللہ کی بحث پیدا ہوتی ہے جو ہندستان میں ایک معرکہ آرا مسئلہ ہوگیا ہے کہ اس قسم کے ذبیحہ کو بعض حلال کہتے ہیں اور بعض حرام ،طرفین سے اس مسئلہ میں رسالے لکھے گئے ہیں، اس روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ مسئلہ اُس زمانہ میں بھی مختلف فیہ تھا ،کیونکہ علمائے مکہ معظمہ نے اس کو جائز رکھا اور ابن شہاب ؒ نے حرمت کی رائے دی ۔
بہر حال جنوں کے مختلف حالات ہیں اگر وہ سب لکھے جائیں تو ایک ضخیم کتاب ہو جا ئے گی ،اس لئے ان ہی چند حالات پر اکتفاء کرنا مناسب سمجھا گیا ۔
من الجنۃ والناس کے معنی میں اختلاف ہے ۔ قول صحیح یہی ہے کہ وہ بیان وسواس ہے ۔یعنی وسوسہ انداز جو جن بھی ہوتے ہیں اور آدمی بھی ، ان سے میں پناہ مانگتا ہوں ۔
ابن تیمیہ ’’نے تفسیر معوذ تین میں یہ روایت نقل کی ہے کہ رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نعوذ باللہ من شیا طین الانس و الجن ابو دردا ء ؓ نے پوچھا : کیا آدمی بھی شیا طین ہ وتے ہیں؟ حضرت ؐ نے فرما یا : ہاں شیاطین جن سے بھی وہ بدتر ہیں ۔بدتر ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ شیاطین انس دوستی کے پیرایہ ہوتے ہیں او رہم جنس ہونے کی وجہ سے آدمی ان کی طر ف مائل بھی ہو تا ہے کما قیل الجنس یمیل الی الجنس ۔شیا طین انس وہی ہو تے ہیں جن کی طبیعت برے کام اور شرو فساد کی طرف مائل ہو تی ہے ، جولوگ ان کی صحبت اختیار کر تے ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ان کوبھی وہ اپنا ہم مشرب بنا ڈالیں ۔
پھر ہر نفس کا یہی لازمہ ہے کہ کچھ نہ کچھ وسوسے ڈالتا رہتا ہے ،جیسا کہ اس آیت شریفہ سے معلوم ہوتا ہے قولہ تعالیٰ ولقد خلقنا الانسان ونعلم ما توسوس بہ نفسہ یعنی نفس جو وسوسہ ڈالتا ہے اس کو خدا جانتا ہے ۔ اور حدیث شریف سے ثابت ہے کہ آدمی کا نفس دشمنوں میں سب سے بڑا دشمن ہے ۔پہلے تو نفس ہی خود وسوسہ انداز ہے پھر جب شیاطین الانس سے صحبت اور فاقت حاصل ہو تو پھر کیا کہنا ظلمات بعضہا فوق بعض کا مضمون صادق آجا تا ہے ۔
اس لئے آدمی کو چاہئے کہ صلحاء کی صحبت اختیار کرے ،تاکہ ان کی صحبت کی برکت سے نفس کے خیالات درست ہوجائیں اور اچھے وسوسے ڈالنے لگے ۔ احادیث میںاہل بدعت و ہوا ء کی صحبت سے سخت مما نعت وارد ہے ،اس کی یہی وجہ ہے کہ جب آدمی ان کی صحبت میںبیٹھے گا تووہ ضرور برے وسوسے ڈالیں گے جس سے اس کا نفس متا ثر ہو کر ان کاہم خیال ہو جا ئے گا ۔چنانچہ یہ امر مشاھَد ہے کہ کیسا ہی بے اصل اور خلاف عقل ونقل مذہب ایجاد کیا جا تا ہے لوگ فوری اس میں داخل ہو جا تے ہیں ! اور وساوس شیاطین الانس ایسے راسخ ہوجا تے ہیں کہ قرآن و حدیث بھی ان کے روبرو پڑھے جائیں تو ان کو جنبش نہیں ہوتی ۔
مذہب سے اصلی غرض یہ ہے کہ آدمی اس کا پابند ہونے کی وجہ سے مرنے کے بعد ہمیشہ راحت وآشایش میں رہے ، اتنی بڑی دولت مفت میں حاصل نہیں ہو سکتی ، اس کے لئے بڑی کوشش درکا ر ہے ۔جب تک آدمی وساوس شیاطین جن وانس سے احتراز نہ کرے یہ دولت حاصل نہیں ہوسکتی ، ا س کا حقیقی علاج بغیر اس کے کوئی نہیں کہ آدمی پورے طورپر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائے ،جیساکہ اس سورہ میں صراحتاً ارشاد ہے ۔

Exit mobile version