چور ولی بن گیا:
منقول ہے کہ ایک چور رات کے وقت حضرتِ سیِّدَتُنا رابعہ بصریہ عدویہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہاکے گھر داخل ہوا، اس نے دائیں بائیں ہر طرف پورے گھر کی تلاشی لی لیکن سوائے ایک لوٹے کے کوئی چیز نہ پائی۔ جب اس نے نکلنے کا ارادہ کیاتو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا نے فرمایا: ”اگر تم چالاک و ہوشیار چورہو تو کوئی شئے لئے بغیر نہیں جاؤ گے۔”اس نے کہا:”مجھے تو کوئی شئے نہیں ملی ۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے فرمایا: ”اے غریب شخص! اس لوٹے سے وضو کر کے کمرے میں داخل ہوجا اور دو رکعت نماز ادا کر،یہاں سے کچھ نہ کچھ لے کے جائے گا۔” اس نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا کے کہنے کے مطابق وضو کیا اور جب نماز کے لئے کھڑا ہوا توحضرت
سیِّدَتُنا رابعہ عدویہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا نے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھا کر یوں دُعاکی: ”اے میرے آقا ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ! یہ شخص میرے پاس آیا لیکن اس کو کچھ نہ ملا، اب میں نے اسے تیری بارگاہ میں کھڑا کر دیا ہے، اسے اپنے فضل و کرم سے محروم نہ کرنا۔” جب وہ نماز سے فارغ ہواتو اس کو عبادت کی لذت نصیب ہوئی۔ چنانچہ، رات کے آخری حصے تک وہ نماز میں مشغول رہا۔جب سحری کا وقت ہوا تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا اس کے پاس تشریف لے گئیں تو اسے حالتِ سجدہ میں اپنے نفس کو ڈانٹتے ہوئے اوریہ کہتے ہوئے پایا: جب میرا رب عَزَّوَجَلَّ مجھ سے پوچھے گا: ”کیا تجھے حیا نہ آئی کہ تو میری نافرمانی کرتارہا؟ اور میری مخلوق سے گناہ چھپاتارہا اور اب گناہوں کی گٹھڑی لے کر میری بارگاہ میں پیش ہے، جب وہ مجھے عتاب کریگا اور اپنی بارگاہِ رحمت سے دور کر دے گا تواس وقت میں کیا جواب دوں گا؟ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا نے پوچھا:”اے بھائی! رات کیسی گزری ؟” بولا: ”خیریت سے گزری، عاجزی و انکساری سے میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کھڑا رہاتو اس نے میرے ٹیڑھے پَن کو درست کر دیا، میرا عذر قبول فرما لیااور میرے گناہوں کو بخش دیااورمجھے میرے مطلوب و مقصود تک پہنچا دیا۔” پھروہ شخص چہرے پر حیرانی وپریشانی کے آثار لئے چلا گیا۔ حضرت سیِّدَتُنا رابعہ بصریہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہانے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایااو ر عرض کی:”اے میرے آقا و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! یہ شخص تیری بارگاہ میں ایک گھڑی کھڑا ہوا تو تُو نے اِسے قبول کر لیا اور میں کب سے تیری بارگاہ میں کھڑی ہوں، توکیا تُو نے مجھے بھی قبول فرما لیا ہے؟۔” اچانک آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا نے دِل کے کانوں سے یہ آواز سنی : ”اے رابعہ! ہم نے اسے تیری ہی وجہ سے قبول کیا اور تیری ہی وجہ سے اپنا قرب عطا فرمایا۔”
یَا سَیِّدِیْ عَبْدُکَ الْمِسْکِیْنُ فِیْ بَابِکَ یَرْجُوْ رِضَاکَ فَجِدْ بِالْعَفْوِ اَوْلٰی بِکَ
حَاشَاکَ تَسْدُلُ حِجَابَکَ دُوْنَ طُلَّابِکَ اَوْ تَبْتَلِیَ بِعَذَابِکَ قَلْبَ اَحْبَابِکَ
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! تیرا مسکین بندہ تیری رضا کی امید لگائے تیرے در پر حاضرہے پس معافی کے ساتھ جودو کرم کرنا تیرے شایانِ شان ہے ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔(یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ !) تیری پناہ کہ تو اپنے طلبگاروں پر اپنے وصال سے پردہ ڈالے یا اپنے دوستوں کے دلوں کو عذاب میں مبتلا کرے۔
اے میرے اسلامی بھائی! پختہ عزم والے تجھ سے سبقت لے گئے اور تو غفلت کی نیند سویا ہوا ہے ۔اُٹھ اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے درپر نادِم شخص کی طرح کھڑا ہوجااور ذلت سے سر کو جھکاکر یوں کہہ کہ”میں ظالم ہوں۔” اور سحری کے وقت یوں عرض کر کہ ”میں گنہگار و نافرمان ہوں، اے مالک و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! میں تیرے عفووکرم کی امید لئے تیرے دربار میں حاضر ہوں، مجھے معاف فرما دے۔” اور اس کے نیک بندوں سے مشابہت اختیارکراگرچہ عمل کے اعتبار سے توان میں سے نہیں پھر بھی ان کا قرب اختیار کر۔ اے میرے اسلامی بھائی! عارفین بصیرت کی نگاہ سے دیکھتے اور اپنے علم پر عمل کرتے ہیں، انہوں نے نیند کو چھوڑ
کر تاریک راتوں میں قیام کیا اور آنسوؤں سے چہروں کودھویا پس زجروتوبیخ والی آیات کی تلاوت نے انہیں بے چین کر دیا۔