چشم مبارک  حضور ﷺ 

چشم مبارک  حضور ﷺ

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک آنکھیں بڑی (2 ) اور قدر ت الٰہی سے سُرمَگِیں ( 3) اور پلکیں دراز تھیں ۔ آنکھوں کی سفیدی میں باریک سرخ ڈور ے تھے۔ کتب سابقہ میں یہ بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ایک علامت ِنبوت تھی یہی وجہ تھی کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ۲۵سال کی عمر شریف میں خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف سے ان کے غلام مَیْسَرہ کے ساتھ تجارت کے لئے ملک شام کا سفر کیا اور بصریٰ میں نَسْطُور راہب کے عبادت خانہ کے قریب ایک درخت کے نیچے اتر ے تو راہب مذکور نے مَیْسَرہ سے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت یہ سوال کیا: ’’ کیا ( 4) ان کی دونوں آنکھوں میں سر خی ہے؟ ‘‘ مَیْسَرہ نے جواب دیا: ہاں اور وہ سر خی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کبھی جدا نہیں ہوتی۔ (5 )
اللّٰہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بصر شریف کا وصف قرآن مجید میں یوں مذکور فرمایا : مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى (۱۷) (سورۂ نجم ) (6 ) یعنی شب معراج میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آنکھ مبارک نے ان آیات کو دیکھنے سے عدول و تجاوز نہ کیا کہ جن کے دیکھنے کے لئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مامور تھے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ایسی غایت درجہ کی قوت ِبصارت عطا ہوئی تھی کہ آپ صَلَّی

اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جس شے کو دیکھتے خواہ وہ غایت درجہ خفا میں ہو، (1 ) اسے یوں اِدراک فرماتے تھے کہ جس طرح وہ واقع اور نفس الا مر (2 ) میں ہوا کر تی۔ (3 )
امام بیہقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (متوفی ۴۵۸ ھ) نے بروایت ( 4) ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نقل کیا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اندھیری رات میں روشن دن کی طرح دیکھتے تھے۔ (5 ) حدیث صحیح ( 6) میں آیا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ مجھ سے تمہارا رکوع اور خشوع پو شید ہ نہیں ۔ میں تم کواپنی پیٹھ کے پیچھے دیکھتا ہوں ۔ (7 ) امام مجاہد (متوفی ۱۰۴ھ) نے ( 8) ’’ الَّذِیْ یَرٰىكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ (۲۱۸) وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ (۲۱۹) ‘‘ (شعرآء ، ع ۱۱) (9 ) کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ رسول اللّٰہ (10 ) .صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنماز میں پچھلی صفوں کو یوں دیکھتے تھے جیسا کہ اپنے سامنے والوں کو۔ (11 ) احادیث مذکورہ بالا میں رُویت سے مراد رُویَتِ عَینی (12 ) ہے جو اللّٰہ تعالٰی نے اپنے ـحبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو بطورِ خرقِ عادت ( 13) عطا فرمائی تھی۔ جس طرح باری تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے
قلب شریف کو معقولات کے ادر اک میں احاطہ اور وسعت بخشی تھی اسی طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حواس لطیف کو محسوسات کے احساس میں تو سیع عنایت فرمائی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فر شتوں اور شیاطین کو دیکھنا اور شب معراج کی صبح کو مکہ مشرفہ میں قریش کے آگے بیت المقدس کو دیکھ کر اس کا حال بیان فرمانا اور مسجد نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بننے کے وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مدینہ منورہ سے کعبہ مشرفہ کو دیکھنا، زمین کے مشارق ومغارب کو دیکھ لینا اور حضرت جعفر طیَّار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہادت کے بعد بِہِشْت میں فرشتوں کے ساتھ اُڑ تے دیکھنا، یہ تمام امور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قوت بینا ئی پر دلا لت کر تے ہیں ۔
غز وۂ اَحزاب میں خند ق کھود تے وقت ایک سخت پتھر حائل ہو گیا تھاجسے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کدال کی تین ضربوں سے اُڑادیا۔ پہلی ضرب پر فرمایاکہ میں یہاں سے شام کے سر خ محلات دیکھ رہا ہوں ۔ دوسری ضرب پر فرمایا کہ میں یہاں سے کسریٰ کا سفید محل دیکھ رہا ہوں ۔ تیسری ضرب پر فرمایا کہ اس وقت میں یہاں سے ابواب صنعاء کو دیکھ رہا ہوں ۔ ( 1) اسی طرح جب غزوۂ موتہ میں حضرات زید بن حارِثہ و جعفر بن ابی طا لب وعبد اللّٰہ بن رواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم یکے بعد دیگر ے بڑی بہادری سے لڑتے ہو ئے شہید ہو گئے تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ منورہ میں ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور بیان فرمارہے تھے۔

Exit mobile version