واقعۂ اصحابِ فیل

واقعۂ اصحابِ فیل

 

تَوَ لُّد شریف سے 55دن پہلے ایک واقعہ پیش آیا جو اَصحاب فیل کا واقعہ کرکے مشہور ہے۔اس واقعہ کی کیفیت بطریق اختصار یوں ہے کہ اس وقت شاہ حبشہ کی طرف سے اَبْرَہَہ یمن کا گور نر تھا اس نے شہر صنعاء میں ایک کلیسابنا یا اور شاہ حبشہ کو لکھا کہ میں نے آپ کے لئے ایک بے نظیر کلیسابنو ایا ہے۔میں کوشش کررہاہوں کہ عرب کے لوگ آئندہ خانہ کعبہ کو چھوڑ کر یہیں حج وطواف کیاکریں ۔جب یہ خبر عرب میں مشہور ہو گئی تو بنی کِنانہ میں سے ایک شخص نے غصہ میں آکر اس کلیسامیں بول وبر از کر دیا۔یہ دیکھ کر اَبْرَہَہ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے قسم کھائی کہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ نہ بجادوں تو میرانام اَبْرَہَہ نہیں ۔اسی وقت فوج وہا تھی لے کر کعبہ پر چڑھا ئی کی یہاں تک کہ مقام مُغَمس میں جو مکہ مشرفہ سے دومیل ہے جااترا اور ایک سردار کو حکم دیا کہ اہل مکہ سے چھیڑ چھاڑ شروع کر ے۔چنانچہ وہ سردار، قریش کے اونٹ اور بھیڑ بکریاں ہانک لایا جن میں دوسو اونٹ عبد المُطَّلِب بن ہاشم کے بھی تھے۔بعد ازاں اَبْرَہَہ کی طرف سے حناطہ حمیری گیااور عبدالمُطَّلِب کو اَبْرَہَہ کے پاس لے آیا۔اَبْرَہَہ نے عبدالمُطَّلِب کا بڑااِکرام کیا اور دونوں میں بذریعہ ترجمان یہ گفتگوہوئی:
اَبْرَہَہ : تم کیا چاہتے ہو ؟
عبدالمُطَّلِب: میرے اونٹ واپس کردو۔
اَبْرَہَہ : (متعجب ہو کر) تمہیں او نٹوں کا تو خیال ہے مگر خانہ کعبہ جو تمہارا اور تمہارے آباؤ اَجد ادکادین ہے جسے میں ڈھانے آیاہوں اس کا نام تک نہیں لیتے۔
عبد المُطَّلِب: میں اونٹوں کا مالک ہوں ، خانہ کعبہ کا مالک اور ہے وہ اپنے گھر کو بچائے گا۔
اَبْرَہَہ : خانہ کعبہ مجھ سے بچ نہیں سکتا۔
عبدالمُطَّلِب: پھر تم جانواور وہ۔
اس گفتگو کے بعد عبدالمُطَّلِب اپنے اونٹ لے کر مکہ میں واپس آگیا اور قریش سے کہنے لگا کہ شہر مکہ سے نکل جاؤ اور پہاڑ یوں کے دَرَّوں میں پنا ہ لو۔یہ کہہ کر خود چند آدمیوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گیا اور درواز ے کا حلقہ پکڑ کر یوں دعاکی:
لَا ہُمَّ اِنَّ الْعَبْدَ یَمْنَعُ رَحْلَہُ فَامْنَعْ حِلَالَک
لَا یَغْلِبَنَّ صَلِیْبُہُمْ وَمِحَالُہُمْ غَدْوًا مِحَالَکْ
اِنْ کُنْتَ تَارِکَہُمْ وَقِبْلَتَنَا فَائَمْرٌ مَّا بَدَا لَک
ترجمہ اَشعار: اے اللّٰہ! بندہ اپنے گھر کو بچایا کر تا ہے تو بھی اپنا گھر بچا، ایسا نہ ہو کہ کل کو ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب آجائے، اگر تو ہمارے قبلہ کوان پر چھوڑنے لگا ہے تو حکم کر جو چاہتاہے۔
اِدھر عبدالمُطَّلِب یہ دعا کر کے اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑوں کے دَرِّے (1) میں پناہ گزیں ہوا، اُدھر صبح کو اَبْرَہَہ خانہ کعبہ کو ڈھا نے کے لئے فوج اور ہاتھی لے کر تیار ہوا۔ جب اس نے ہاتھی کا منہ مکہ کی طرف کیا تو وہ بیٹھ گیا، بُہتیرے آنکسمارے مگر نہ اٹھا، آخرمکہ کی طرف سے اس کامنہ موڑ کر اٹھایا تو اٹھا اور تیزبھاگنے لگا، غرض جب مکہ کی طرف اس کا منہ کرتے تو بیٹھ جاتا اور کسی دوسری طرف کرتے تو اٹھ کر بھاگتا، اسی حال میں اللّٰہ تعالٰی نے سمُندر کی طرف سے اَبابیلوں
کے غول کے غول بھیجے، جن کے پاس کنکریاں تھیں ، ایک ایک چونچ میں اور دودوپنجوں میں انہوں نے کنکروں کا مینہ برسانا شروع کیا، جس پرکنکر گرتی ہلا ک ہو جاتا۔ یہ دیکھ کر اَبْرَہَہ کا لشکر بھاگ نکلا۔اس طرح اللّٰہ تعالٰی نے اپنا گھر دشمن سے بچا لیا، قرآن مجید سورۂ فیل میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ (1)
قصہ ٔ اَصحاب فیل میں دو طرح سے حضرت کی کر امت ظاہر ہے، ایک تو یہ کہ اگر اصحاب فیل غالب آتے تو وہ حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کی قوم کو قید کر لیتے اور غلام بنا لیتے، اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے اَصحابِ فیل کو ہلاک کر دیاتاکہ اس کے حبیبِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر حمل و طُفُوْلِیَّت کی حالت میں اَسیر ی وغلامی کا دھبہ نہ لگے۔ دوسرے یہ کہ اصحاب فیل نصاریٰ اہل کتاب تھے جن کا دین قریش کے دین سے جو بت پر ست تھے یقینا بہتر تھا مگر یہ کہ حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کے وُجود ِباجودکی برکت تھی کہ اللّٰہ تعالٰی نے بیت اللّٰہ شریف کی حرمت قائم رکھنے کے لئے قریش کو باوجودبت پر ست ہو نے کے اہل کتاب پر فتح دی۔یہ واقعہ حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی نبوت کا پیش خیمہ تھا کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دین میں اسی بیت اللّٰہ کی تعظیم اسی کے حج اور اسی کی طرف نماز کا حکم ہوا۔

Exit mobile version