نرمی اختیار کرتے ہوئے غصہ سے اجتناب کریں:
جو نگران وذمہ دار اسلامی بھائی اپنے ماتحت اسلامی بھائیوں کو جھاڑنے اور ڈانٹنے کا انداز اختیار کرتا ہے، وہ بہت جلد اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے۔ یاد رکھئے! آپ کی ذمہ داری اپنے اسلامی بھائیوں سے نرمی کے ساتھ مدنی کام لینا ہے ۔ بالفرض اگر وہ سستی اور کاہلی کا ثبوت دیں تب بھی آپ نرمی ہی اختیار فرمائیں۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دس سال مدنی آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں رہا ، آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ” فلاں کام تونے
کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہ کیا ؟” ( مسلم،کتاب الفضائل ،باب کان رسول اللہ احسن الناس خلقاًص۱۲۶۴،رقم: ۲۳۰۹)
ہمارے شیخ ِ طریقت ، امیرِ اہل ِ سنت حضرت علامہ مولاناابوبلال محمد الیاس عطار قادری مد ظلہ العالی کا بھی یہی معمول ہے کہ آپ اسلامی بھائیوں کے ساتھ بہت نرمی سے پیش آتے ہیں ۔ جب کسی غلطی کا مرتکب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو تو بھر پور شفقت سے نوازتے ہوئے اس کی ایسی تربیت فرماتے ہیں کہ وہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے، ”میرا پیر ، میرا پیر(ہے)۔۔۔۔۔۔۔”
آپ مدظلہ العالی ارشاد فرماتے ہیں کہ ،”حادثہ اسی کار کو پیش آتا ہے جو سڑک پر چلے ،گیراج میں کھڑی کار کو حادثہ کیسے پیش آئے گا؟ اسی طرح ٹھوکر وہی گھوڑا کھاتا ہے جو دوڑ میں شامل ہو ، اصطبل میں کھڑا رہنے والاگھوڑا کیا گرے گا ؟ بالکل اسی طرح غلطی بھی اسی سے ہوتی ہے جو کام کرتا ہے ۔ ”
لہذا ! اپنے اسلامی بھائیوں کی تربیت پر بھرپور توجہ دیں کہ وہ حتی المقدور غلطی سے بچیں اور دورانِ تربیت نرمی اختیار کیجئے (سختی سے کام نہ لیں)کہ
ہے فلاح و کامرانی نرمی وآسانی میں
ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
دعائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسولِ پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعاء کی، ”یاالٰہی عزوجل جومیری امت کے کسی کام کا والی ہو پھر وہ ان پر مشقت بن جائے تو اس پر مشقت ڈال اور جو میری امت کی کسی چیز کا والی ہو پھر ان پر نرمی کرے تو ان پر نرمی
کر۔” (مسلم، کتاب الامارۃ ، ص۱۰۱۶،رقم :۱۸۲۸)
اے مجالس اور مشاورتوں کے نگران اسلامی بھائیو! اے جامعۃ المدینہ کے ذمہ دار اسلامی بھائیو! اے مدرسۃ المدینہ کے ذمہ دارو! اے دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں کے ذمہ دار اسلامی بھائیو! ذیل میں دی گئی روایات کو غور سے پڑھئے اور اپنا محاسبہ کر نے کی کو شش کیجئے ۔چنانچہ۔۔۔۔۔۔
حضرت سیدناعبداللہ بن مغفّل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبئ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے ارشاد فرمایا ،” بے شک اللہ تعالیٰ نرمی فرمانے والاہے اورنرمی کرنے والے کو پسند فرماتا ہے اوراسے وہ کچھ عطا فرماتاہے جو سخاوت کرنے والے کو نہیں دیتا۔”
(ابن ماجہ ، کتاب الادب ، باب الرفق ، ج۴،رقم ۳۶۸۸، ص۱۹۸ )
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیبْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبئ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے فرمایا، ”اللہ ہر معاملے میں نرمی کو ہی پسند فرماتاہے۔”
(ابن ماجہ ، کتاب الادب ، باب الرفق ، ج۴،رقم۳۶۸۹، ص۱۹۸ )
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیبْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ ان کی رعایا کی ایک جماعت اپنے حاکموں کی شکایت کرتی ہے تو آپ نے ان سب کو اپنے پاس بلایا ۔ جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کھڑے ہوئے اور حمد وثناء کے بعد فرمایا ،” اے لوگو! بے شک ہمارا تم پر حق ہے کہ تم پیٹھ پیچھے ہماری خیر خواہی کرو اور اچھے کاموں میں معاونت کرو۔” پھر فرمایا،” اے حاکمو!تم پر رعایا کا حق ہے اور یادرکھو کہ حکمران کی بُردباری اور نرمی سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اوراللہ تعالیٰ کو حاکم کی جہالت سے زیادہ کسی کی جہالت سے نفرت نہیں ، یاد رکھو کہ جو شخص اپنے سامنے والوں کو عافیت سے رکھتا ہے ،
اسے دوسرے لوگوں سے عافیت پہنچتی ہے ۔” (احیاء العلوم ، ج۳،ص ۴۱۷)
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیبْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت علی بن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ ایک قریشی نے حضرت عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے سخت کلامی کی تو انہوں نے کافی دیر تک سر نیچے کئے رکھا، پھر فرمایا ،”تمہارا ارادہ یہ تھا کہ شیطان کے ہاتھوں خفیف ہوکر سلطانی غلبہ کے تحت تمہارے ساتھ وہ بات کروں جو کل تم مجھ سے کرو گے ۔
(احیاء العلوم ، ج۳،ص ۳۷۱)
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیبْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا ،”اے بیٹے ! غصے کے وقت عقل اسی طرح ٹھکانے نہیں رہتی جس طرح جلتے تنور میں زندہ آدمی کی روح قائم نہیں رہتی ۔ (احیاء العلوم ، ج۳،ص ۳۷۱)
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیبْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کی گئی ،”ایک جملے میں اچھے اخلاق کی وضاحت فرما دیں۔” تو ارشاد فرمایا ،”غصے کو چھوڑ دینا۔” (احیاء العلوم ، ج۳،ص ۴۱۷)
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیبْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد