مَعِیْشت کا آغاز
صَدْرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی مقصدِ کسب و تجارت اور آغازِ مَعِیْشت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ انسانی ضروریات اتنی زائد اور اُن کی تَحْصِیل (حاصل کرنے)میں اتنی دُشواریاں ہیں کہ ہر شخص اگر اپنی تمام ضروریات کا تنہا متکفل(ذِمّے دار )ہونا چاہے غالباً عاجز ہو کر بیٹھ رہے گااور اپنی زندگی کے ایّام خوبی کے ساتھ گُزار نہ سکے گا، لہٰذا اُس حکیمِ
مُطْلق(عَزَّوَجَلَّ) نے انسانی جماعت کو مختلف شعبوں اور مُتَعدّد قسموں پرمنقسم(تقسیم) فرمایا کہ ہر ایک جماعت ایک ایک کام انجام دے اور سب کے مَجْمُوعہ سے ضروریات پوری ہوں۔مثلاً کوئی کھیتی کرتا ہے کوئی کپڑا بُنْتا ہے،کوئی دوسری دستکاری کرتا ہے، جس طرح کھیتی کرنے والوں کو کپڑے کی ضرورت ہے، کپڑا بُننے والوں کو غلّہ کی حاجت ہے، نہ یہ اُس سے مستغنی (بے پروا)نہ وہ اس سے بے نیاز، بلکہ ہر ایک کو دوسرے کی طرف احتیاج(ضرورت)،لہٰذا یہ ضرورت پیدا ہوئی کہ اِس کی چیز اُس کے پاس جائے اور اُس کی اِس کے پاس آئے تاکہ سب کی حاجتیں پوری ہوں اور کاموں میں دُشواریاں نہ ہوں۔یہاں سے مُعاملات کا سلسلہ شروع ہوا ،بیع (خرید و فروخت)وغیرہ ہر قسم کے مُعاملات وجود میں آئے۔
اسلام چونکہ مکمل دین ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر اس کا حکم نافذ ہے، جہاں عبادات کے طریقے بتاتا ہے مُعاملات کے مُتَعَلِّق بھی پوری روشنی ڈالتا ہے تاکہ زندگی کا کوئی شعبہ تشنہ (ادھورا)باقی نہ رہے اور مُسلمان کسی عمل میں اسلام کےسوا دوسرے کا محتاج نہ رہے۔ جس طرح عبادات میں بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض ناجائز اسی طرح تَحْصِیلِ مال کی بھی بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض ناجائز اور حلال روزی کی تَحْصِیل اس پر موقوف کہ جائز و ناجائز کو پہچانے اور جائز طریقے پر عمل کرے ناجائز سے دوربھاگے۔(1)چنانچہاللہ عَزَّوَجَلَّ کا ارشاد پاک ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمْ ۟(پ۵،النساء:۲۹)
ترجَمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤمگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔