مسائل ِفقہ کے دلائل اس وقت طلب کرنا بے موقع ہے

مسائل ِفقہ کے دلائل اس وقت طلب کرنا بے موقع ہے

اگراہل انصاف غور فرمائیں تو بآسانی معلوم ہوسکتا ہے کہ جب اکابر محدثین نے ردو قدح ، تحقیق و تنقید کے بعد فقہ کو تسلیم کرلیا تو اب ازسرنو اس امر کی تحقیق کہ کونسا مسئلہ موافقِ حدیث ہے اور کونسا مخالف ۔ تکلیف مالا یطاق ہے ۔
اس لئے ہر مسئلہ کہ تحقیق امام صاحب نے محدثین کے ایسے مجمع میں کی کہ جس میں تمام روئے زمین کے محدثین کا سرمایہ حدیث موجود تھا اور ایک ایک مسئلہ میں کئی کئی روز بحث ہوتی رہی جس کا حال ابھی معلوم ہوا ۔ اب وہ سرمایۂ حدیث کہاں ؟ اُس کو تو خود محدثین نے کھو دیا اور موقع استدلال اور طریقۂ استخراج جو خاصہ امام صاحب کا تھا اُس کو جاننے والا کون ہے ؟ اور ہر مسئلہ میں جو مناظرہ ہوتاتھا وہ قلمبند تو ہوا ہی نہیں ؛جس سے تمام دلیلیں بالتفصیل معلوم ہوں بلکہ طے ہونے کے بعد صرف حکم لکھدیا جاتا تھا ۔
پھر ہر مسئلہ کی دلیلیں معلوم ہونے کی کیا صورت ؟ مقلدوں سے اس وقت دلائل طلب کرنا اُن کو مجتہد قرار دینا ہے ، جو ظلم اور تکلیف ما لا یطاق ہے ۔ اگر اس وقت مخالفینِ اسلام مسلمانوں سے کہیں کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کے ثابت کرنے کی غرض سے شق القمر وغیرہ معجزے دکھلائے ہیں تو تم بھی وہی معجزے دکھلاؤ تاکہ ہم بھی ایمان لائیں تو کیا اُن کا یہ قول قرین انصاف ہوگا ؟ ہرگز نہیں ! ہم اُن کے جواب میں یہی کہیں گے کہ معجزے دکھانا نبی کا کام ہے ، سو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزار ہا معجزے دکھلا کر

ایک لاکھ سے زیادہ کافروں کو مسلمان بنایا ، ہمارے لئے یہی حجت کافی ہے کہ اُن لاکھ مسلمانوں سے کروڑہا مسلمانوں نے اسلام حاصل کیا ، جو ہم تک بتواتر پہونچا ہے ۔ اسی طرح فقہی مسائل کی دلائل طلب کرنے والوں سے ہم یہی کہیں گے کہ دلائل قائم کرنا امام مجتہد کا کام ہے ، سو ہمارے امام نے بفضلہ تعالیٰ اکابر محدثین کے مجمع میں دلائل قائم کر کے اُن کو منوا دیا اور احکامِ خدا و رسول پہونچا کر راہی ملک بقا ہوئے ۔ اب ہمارا کام یہی ہے کہ جو احکام بتواتر ہم تک پہونچے ہیں یعنی ہزارہا کتب فقہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ امام صاحب کے اقوال ہیں ، اُن کو تقلیداً مان لیں ، ہم امتی مقلدوں کو نہ معجزے دکھلانے کی ضرورت ہے نہ دلائل قائم کرنے کی احتیاج ۔ اس پر بھی فقہا نے رہی سہی حدیثوں سے بہت کچھ استدلال پیش کر دیئے ہیں ، جو مقلدوں کے مزید اطمینان کے لئے کافی ہیں۔
الحاصل امام صاحب کا تبحرِ علمی اور قوت ِاجتہادی اور سب سے زیادہ احادیثِ احکام کو جاننا اور محدثین کے مقابلہ میں مسائل کا طے ہونا اور اُن کے اقوال میں احادیث کے مضامین محفوظ ہو جانا اور اُن کا قول پختہ اور قابل قبول ہونا جب اکابر محدثین کی شہادتوں سے ثابت ہوگیا تو ان حضرات کے صدق بیانی کے اعتماد پر ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ امام صاحب کا کوئی قول مخالف ِحدیث نہیں اور بعض اقوال جو ظاہراً مخالف ِحدیث معلوم ہوتے ہیں وہ دراصل مخالف نہیں ۔

جن محدثین پر صحیح حدیثوں کا مدار ہے ، انہوں نے فقہ کو مطابق ِحدیث کہا

اب اور سنئیے ! ’’تذکرۃ الحفاظ ‘‘میں امام ذہبیؒ نے ابن المدینی ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ اکثر احادیثِ صحیحہ کے اسنادوں کا مدار ابن شہاب اور عمر و بن دینار اور قتادہ اور یحییٰ بن کثیر ، ابو اسحاق اور اعمش رحمہم اللہ پر ہے ، پھر ان حضرات کا علم امام مالک اور ابن اسحٰق

اور ابن جریج اور ابن عیینہ اور سعید بن عروبہ اور حماد بن سلمہ اور ابو عوانہ اور شعبہ اور سفیان ثوری اور اوزاعی اور ہشیم رحمہم اللہ کی طرف منتقل ہوا، پھر اُن کا علم یحییٰ بن قطان اور یحییٰ بن زکریا اور ابی زائدہ اور وکیع رحمہم اللہ کی طرف منتقل ہوا،پھر اُن کا علم ابن مبارک اور ابن مہدی اور یحییٰ ابن آدم میں آیا ۔ حاصل یہ کہ ہر طبقہ کا علم یعنی صحیح صحیح حدیثیں منتقل ہوتی ہوئی ابن مبارک اور یحییٰ ابن آدم اور ابن مہدی ؒ کو پہونچیں ۔ اور آپ نے دیکھ لیا کہ ان تینوں حضرات نے امام صاحب کی کیسی کیسی تعریفیں کر کے فقہ کی توثیق کی اور علاوہ اُن کے مذکورہ طبقات کے اساتذہ بھی امام صاحب کے مداح اور اُن کے اجتہاد اور تفقہ کو مانتے رہے ۔ اور ظاہر ہے کہ جب صحیح روایتوں کا مدار انہی حضرات پر ہے تو صحاح ستہ کا مدار اُن ہی کی روایتوں پر ہوا ۔
غرضکہ ان حضرات کی گواہیوں سے یہ تو یقیناً ثابت ہوگیا کہ ’’فقہ ‘‘ احادیث کے بڑے حصہ کے تو مخالف نہیں ؛ ورنہ یہ حضرات بجائے تعریف امام صاحب کی شکایت کرتے ۔
اب رہا صحیح حدیثوں کا چھوٹا جو حصہ صحاح ستہ کے سوا دوسری کتابوں میں منقول ہے ، سو دوسرے محدثین کی گواہی سے یہ ثابت ہے کہ فقہ اُس کے بھی مخالف نہیں ، ورنہ وہ حضرات جن کے اسمائے گرامی کی فہرست لکھی گئی بجائے تعریف ، شکایت کرتے ۔ ان محدثین کی توثیق سے بھی فقہ کا موافقِ احادیث ہونا ثابت ہوگیا ۔

خزانہ دارانِ حدیث نے فقہ کی توثیق کی، کُل حدیثوں کے عالم نے فقہ حنفیہ کو مان لیا

تلقیح میں ابن جوزیؒ نے لکھا ہے کہ خزان علم یعنی حدیث کے خزانہ دار چھ (6) شخص ہیں : (1) اعمش ‘ (2) امام مالک ‘ (3) اوزاعی‘ (4) مسعر بن کدام ‘ (5) شعبہ اور (6) ثوری رحمہم اللہ ۔ اور ابھی معلوم ہوا کہ یہ تمام حضرات امام صاحب کے تفقہ کے قائل اور مدّاح

اور بعض تو مقلد رہے ، جس سے فقہ کی توثیق بخوبی ہوگئی ، اس لئے کہ ان خزانہ دارانِ حدیث کی جانچ میں جب تک فقہ موافقِ حدیث ثابت نہ ہوئی ہو ممکن نہیں کہ خلافِ واقع اُس کی تعریف و توصیف کر کے صرافان حدیث کی نظر میں اپنے آپ کو بے اعتبار بنا دیتے ، یہ تو ان حضرات کے کمال مرتبت اور علو شان پر دلیل ہے کہ باوجود امام صاحب کی مدح سرائی اور فقہ کی قدر افزائی کے اور محدثوں کے حملوں سے بچ گئے ۔ ورنہ ’’میزان الاعتدال‘‘ وغیرہ سے تو ظاہر ہے کہ بہت سے محدث صرف اسی جرم میں دائرۂ عدالت سے خارج کر دیئے گئے کہ وہ امام صاحب کے مقلد یا مداح تھے ۔
یحییٰ بن معینؒ نے جو امام صاحب کی اور فقہ حنفیہ کی تعریفیں کیں اوپر مذکور ہوئیں ، یہاں قابل ِبحث یہ بات ہے کہ اگر بالفرض کوئی محدث ’’فقہ ‘‘کی تعریف نہ کرتا اور صرف ابن معینؒ اُس کی تعریف و توثیق کرتے کافی تھا ، اس لئے کہ اُن کی نظر تمام حدیثوں پر تھی ؛ جیسا کہ ابن المدینی کے قول سے ظاہر ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک کسی نے یحییٰ ابن معین کے برابر حدیثوں کی روایت کی ہو ۔
اور کہا کہ تمام آدمیوں کا علم اُن کو پہونچا ہے ۔
اور امام احمدؒ کے اِس قول سے بھی یہی ثابت ہے ، جو فرماتے ہیں کہ جس حدیث کو یحییٰ نہیں جانتے وہ حدیث ہی نہیں ۔ کما فی التذکرہ و الخلاصہ غرضکہ اکابر محدثین کی گواہی سے ثابت ہے کہ یحییٰ ابن معین کی نظر کل حدیثوں پرتھی ۔

Exit mobile version