مال و دولت کے متعلق اچھی اچھی نیتیں

مال و دولت کے متعلق اچھی اچھی نیتیں

حلال مال جمع کرنا فی نفسہٖ مُباح ہے(یعنی نہ اس میں ثواب ہے نہ گناہ)۔اگر کوئی علمِ نیّت رکھنے والا اِس کی اچّھی اچّھی نیّتیں کر لے تو خواہ مالِ حلال کے ذَرِیعے اَربوں پتی بن جائے اُس کا مال اُس کی آخرت کیلئے نقصان دہ نہیں۔مگر یاد رہے! رسمی طور پر صرف زَبان سے نیّت کے الفاظ ادا کر لینے کو نیّت نہیں کہتے،نیّت دل کے اُبھار اور پکے ارادے کا نام ہے یعنی جو نیّت کررہا ہے وہ اُس کے دل میں اِس طرح موجود ہو کہ میں نے 100 فیصدی ایساکرنا ہی کرنا ہے۔مال ودولت کے بارے میں نیّت کی

رغبت دلاتے ہوئی حُجۃ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی فرماتے ہیں:مال لینے،چھوڑنے،خرچ کرنے اور روکنے میں نیَّت صحیح ہونی چاہئے۔مال اِس لئے حاصِل کرے کہ عبادت پرمددحاصِل ہواورمال چھوڑنا ہو تو زُہد(یعنی دنیا سے بے رغبتی)کی نیّت سے اور اُسے حقیر سمجھتے ہوئے چھوڑے۔جب یہ طریقہ اختیار کرے گا تو مال کا موجود ہونا اُسے نقصان نہیں پہنچائے گا،اِسی لئے امیرُالْمُؤمنین حضرتِ مولائے کائنات،علیُّ المُرتَضٰی شیر خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:اگر کوئی شخص تمام رُوئے زمین کا مال حاصِل کرے اور اس کا ارادہ رِضائے الٰہی کاحُصول ہو تو وہ زاہد(یعنی دنیا سے بے رغبت)ہے اور اگرتمام مال چھوڑ دے لیکن رِضائے خداوندی مقصود نہ ہو تو وہ زاہد نہیں ہے۔پَس آپ کی تمام حَرَکات و سَکَنات اللہ تعالیٰ کے لیے ہوں اور عبادت سے باہَر نہ ہوں یا عبادت پر مدد گار ہوں۔جو چیزیں عبادت سے زیادہ دُور ہیں وہ کھانا کھانا اورقَضائے حاجت(یعنی استنجا)ہے لیکن یہ دونوں بھی عبادت پرمدد گار ہیں جب ان سے آپ کا مقصود یہ ہو گا یعنی عبادت پر قوّت اوردل جمعی حاصِل کرنے کی نیَّت ہو گی تو یہ کام بھی آپ کے حق میں عبادت ہوں گے۔اسی طرح جو چیزیں آپ کی حفاظت کرتی ہیں مَثَلًا قمیص،اِزار(یعنی پاجامہ) بچھونا اوربرتن وغیرہ تو ان سب میں بھی اچھی نیّت ہونی چاہئے کیوں کہ دین کے سلسلے میں ان تمام چیزوں کی ضَرورت ہوتی ہے اور جو کچھ ضَرورت سے زائد ہو اُس سے بندگانِ خدا کو نفع پہنچانے کی نیّت ہونی چاہئے اورجب کسی شخص کو اس کی ضَرورت
ہو تو انکار نہ کرے جو شخص اس طرح کا عمل کرے گا اُس نے مال کے سانپ(یہاں مال کو’’سانپ‘‘سے تشبیہ دی گئی ہے)سے اُس کا(مُفید حصّہ یعنی)جوہر اور تِریاق(زہر مُہرہ یعنی زہر کی دوا جو زہر کا اُتار کرتی ہے)بھی لے لیا اور(خود سانپ کے)زَہر سے محفوظ (بھی) رہا،ایسے آدمی کومال کی کثرت نقصان نہیں پہنچاتی لیکن یہ کام وُہی شخص کر سکتا ہے جس کے قدم دین میں مضبوط ہوں اور اُس کے پاس کثیر علمِ دین ہو۔امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی آگے چل کر مال و دولت سے بچ کر رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:جس طرح نابینا کا بِینا(یعنی آنکھ والے)کی طرح پہاڑوں کی چوٹیوں اور دریاؤں کے کَناروں تک پہنچنا اور کانٹے دار راستوں سے گزرنا ممکن نہیں اِسی طرح عام آدمی کا مال و دولت کی آفتوں سے بچنا بھی ناممکن ہے۔(1) مال و دولت پرہیز گار اور بکثرت علمِ دین رکھنے والا ہی چاہے تو لے سکتا ہے کہ شریعت کے مطابِق اِسے حاصِل اور شریعت ہی کے مطابِق اِسے استِعمال کر سکتا ہے اورمال کی آفتوں سے خود کو بچا سکتا ہے۔
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1… اِحیاءُ العلوم ،۳/۳۲۵

Exit mobile version