افعال کانفس پر اثر :
غرضکہ ابتدائے حدوث خطرۂ فعل سے لیکر وقوعِ فعل تک نفس کے ساتھ فعل متعلق رہتا ہے ،اس کے بعدجب خیال آتا ہے نفس کو اس کے ساتھ تعلق رہتا ہے،اسی وجہ سے نفس میں اس کا اثر ہوتا ہے اور وہ اثر باقی رہ جاتا ہے ،اگر وہ اچھا کلام موافق مرضی الٰہی ہے تونفس میں اچھا اثر ہو تا ہے ،اور براکام ہو تو برا ثر ۔ان ہی آثار سے اچھے اور برے نفوس باہم ممتاز ہو تے ہیں ۔ جن لوگوں کو کثف ہو تا ہے ان کی نظر نفوس کے حسن و قبح پر پڑتی ہے ،اسی وجہ سے اچھے لوگوں کی وہ تعظیم و توقیر کر تے ہیں اور معمولی لوگوں کی طرف توجہ نہیںکرتے۔
نفس ناطقہ میں افعال کے اثر کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے غضو نت وغیرہ ہوا میں اثر کرتی ہے ،او رہوا کو جو انسان کی روح کو تاز گی او رفرحت بخشتی ہے ان اشیائے خارجیہ کی وجہ سے جانگز اور مہلک بنا دیتی ہے ،جس کا حال کتب طبیہ میں مصرح ہے۔اسی طرح برے افعال روح میںاثر کرکے اس کو گندہ اور مہلک بنا دیتے ہیں،جس کی صحبت میں جوشخص جائے وہ ہلاک ہوجائے ۔جب روح گناہوں کی اثر سے زنگ آلودہ ہو جا تی ہے تو خدا ے تعالیٰ نے اس کی صیقل توبہ مقرر فرمائی ہے جس سے گناہ بالکل نیست و نابود ہو جاتے ہیں ،جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔