عَدْل واِنصاف

عَدْل واِنصاف

رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے زیادہ عادل وامین تھے۔طفولیت میں جب مائی حلیمہ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پہلے پہل گو دمیں لیا تو آپ نے صرف دا ہنی چھاتی سے دودھ پیا اور دوسری ان کے

شیر خوار بچہ کے لئے چھوڑ دی۔ (1 )
جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غنائم حنین تقسیم فرمارہے تھے تو ذوالخویصر ہ رَاس الخَوارِج ( 2) نے کہا: یارسول اللّٰہ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) عدل کیجئے ۔آپ نے فرمایا: ’’ تجھ پر افسوس ! میں اگر عدل نہ کروں تو اور کون کرے گا! اگر میں عادِل نہیں تو تو نا امید وزیاں کا ر ( 3) ہے۔ ‘‘ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا کہ مجھے اجا زت دیجئے کہ میں اس کی گر دن اڑادوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ اسے جانے دو کیونکہ اس کے اصحاب ایسے ہیں کہ ان کی نماز وں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے، وہ دین سے یوں نکل جاتے ہیں جیسا تیر شکار میں سے نکل جا تا ہے۔ ‘‘ ( 4)
ایک دفعہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک شخص سے کچھ کھجور یں اُدھار لیں ۔جب اس نے تقاضا کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، مہلت دیجئے کہ کچھ آجائے تو ادا کر دوں ۔ ‘‘ یہ سن کربولا: ’’ آہ بے وفائی۔ ‘‘ اس پر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو غصہ آگیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ عمر! جانے دو، صاحب حق ایسا ویسا کہا کر تا ہے۔ ‘‘ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت خولہ بنت حکیم اَنصار ِیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے کھجور یں منگوا کراس کے حوالہ کیں ۔ (5 )
حضرت ابو حدرد ا سلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ مجھ پر ایک یہودی کا چار در ہم قرض تھا یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غز وہ خیبر کا ار ادہ فرمارہے تھے اس نے مجھ سے تقاضا کیا، میں نے مہلت مانگی تو وہ نہ مانا اور مجھے پکڑ کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لے گیا، آپ نے مجھ سے دودفعہ فرمایا کہ اس کا حق ادا کردو، میں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ مہم خیبر کا ارادہ فرمارہے ہیں

شاید ہمیں وہاں سے کچھ غنیمت ہاتھ لگے، آپ نے پھر فرمایا کہ اس کا حق ادا کر دو۔یہ قاعدہ تھا کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکسی بات کے لئے تین بار فرمادیتے تو پھر کوئی عذر نہ کیا جاتا۔میرے پاس بدن پر ایک تہہ بند اور سر پر عمامہ تھامیں نے اس یہودی سے کہا کہ اس تہہ بند کو مجھ سے خرید لوچنانچہ اس نے چار در ہم میں خرید لیا، میں نے عمامہ سر سے اتا رکر کمر سے لپیٹ لیا۔ایک عورت میرے پاس سے گز ری اس نے اپنی چادر مجھے اُڑھادی۔ (1 )
سُرَّق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک صحابی تھے ان سے اس نام کی وجہ تسمیہ دریافت کی گئی تو کہنے لگے کہ ایک بدوی دو اونٹ لے کر آیامیں نے خرید لئے پھر میں (قیمت لا نے کے بہانہ سے ) اپنے گھر میں داخل ہوا اور عقب ِخانہ سے نکل گیا اور ان اونٹوں کو بیچ کر اپنی حاجت پوری کی۔ میں نے خیال کیا کہ بدوی چلا گیا ہوگامیں واپس آیا توکیا دیکھتا ہوں کہ وہ کھڑا ہے۔وہ مجھے پکڑکر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لے گیا اور واقعہ عرض کیاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے پو چھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں نے اونٹوں کو بیچ کر اپنی حاجت روائی کی ہے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ بدوی کو قیمت ادا کر دو۔میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے، آپ نے فرمایا کہ تو سُرَّق ہے پھر بدوی سے فرمایا کہ تم اس کو بیچ کر اپنی قیمت وصول کر لو، چنانچہ لوگ اس سے میری قیمت پو چھنے لگے۔وہ ان سے کہتا تھا کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہتے تھے کہ ہم خرید کر اس کو آزاد کر نا چاہتے ہیں ۔یہ سن کر بدوی نے کہا کہ میں تمہاری نسبت ثواب کا زیادہ مستحق وخواہاں ہوں اور مجھ سے کہا کہ جاؤ میں نے تم کو آزاد کردیا۔ ( 2)
ایک دفعہ خاندان مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، قریش نے چاہا کہ وہ حد سے بچ جائے۔ انہوں نے حضرت اُسا مہ بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے جو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے محبوب خاص تھے درخواست کی کہ آپ سفار ش کیجئے۔چنانچہ حضرت اُسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سفارش کی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’ تم حد میں سفارش کرتے ہو! تم سے پہلے لوگ (بنی اسرائیل ) اسی سبب سے

تبا ہ ہوئے کہ وہ غریبوں پر حد جاری کرتے اور امیروں کو چھوڑدیتے۔خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) بھی ایسا کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ ‘‘ ( q)
ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غنیمت تقسیم فرمارہے تھے ایک شخص آیا اور آپ پر جھک گیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کھجور کی سو کھی شاخ سے جو آپ کے دست مبارک میں تھی اسے ٹھو کا دیا جس سے اس کے منہ پر خراش آگئی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تم مجھ سے قصاص لے لواس نے عرض کیا: ’’ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں نے معاف کردیا۔ ‘‘ (2 )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جنگ بدر کے لئے صف آرائی کر رہے تھے۔ حضرت سَواد بن غَزِیَّہ اَنصاری صف سے آگے نکلے ہو ئے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک تیر کی لکڑی سے ان کے پیٹ کو ٹھوکا دیا اور فرمایا : استو یاسواد ۔اے سواد! بر ابر ہو جاؤ۔ اس پر سواد نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے قصاص طلب کیاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فوراً اپنا شکم مبارک ننگا کر دیا اور فرمایا کہ قصاص لے لو۔ یہ قصہ بالتفصیل پہلے آچکا ہے۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امانت کا یہ عالم تھا کہ نبوت سے پہلے بھی آپ عرب میں ’’ امین ‘‘ مشہور تھے۔ چنانچہ قریش کعبہ کو از سر نوبنانے لگے اور وہ حجر اسود کی جگہ تک تیار ہو گیا تو قبائل قریش میں جھگڑا ہوا، ہر ایک قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ حجر اسود کو اٹھا کر ہم اس کی جگہ پر رکھیں گے۔آخریہ قرار پایا کہ جو شخص کل صبح باب بنی شیبہ سے حرم میں پہلے داخل ہو وہ ثالث بنے۔اتفاقاً اس دروازے سے جو پہلے داخل ہو ئے وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے۔آپ کو دیکھتے ہی سب پکار اٹھے : (3 )
’’ ھٰذَا الْا َمِیْنُ رَضِیْنَا ھٰذَا محمد ‘‘ یہ امین ہیں ، ہم راضی ہیں ، یہ محمد ہیں ۔ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)
جب انہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یہ معاملہ ذکر کیا تو آپ نے ایک چادر بچھا کر حجر اسود کو اس میں رکھاپھر فرمایا کہ ہر طرف والے ایک ایک سر دار انتخاب کرلیں اور وہ چاروں سر دار چادر کے چاروں کو نے تھام لیں اور اوپر کو اٹھائیں ۔اس طرح جب وہ چادر مقام نصب کے برابر پہنچ گئی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر دیو ار کعبہ میں نصب فرمایا اور وہ سب خوش ہو گئے۔ (1 )
ایک دفعہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بدن مبارک پر ایک جو ڑا قِطرِی مو ٹے کپڑے (2 ) کا تھا، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیٹھتے تو وہ پسینہ سے بو جھل ہو جاتاایک یہودی کے ہاں شام سے کپڑے آئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کیا کہ آپ کسی کے ہاتھ اس سے ایک جو ڑا قرض منگوالیں ۔ جب آپ کا آدمی یہودی کے پاس پہنچا تو اس نے کہا: ’’ میں سمجھامطلب یہ ہے کہ وہ میرا مال یاد ام یوں ہی اڑ ا لیں ۔ ‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے سن کر فرمایا: ’’ اس نے جھوٹ کہا۔ اسے معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ پرہیزگار اور سب سے زیادہ امانت کا ادا کر نے والا ہوں ۔ ‘‘ (3 )
قریش کو اگرچہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے سخت عداوت تھی مگر باوجود اس کے اپنی جو کھم کی چیز آپ ہی کے ہاں امانت رکھا کر تے تھے

Exit mobile version