عمل بالحدیث کا دھوکا

عمل بالحدیث کا دھوکا

اگر تقلید آبائی کا فقرہ سنکر کسی کو عار آجائے اور اس قلعہ سے باہر نکل پڑے تو کسی نہ کسی

مکّار ، غدّار کا ضرور شکار ہوجائیگا ،کیونکہ ہر شخص کا کام نہیں کہ مخالفوں کی دلائل کو رد کر کے اپنا حقانی دین و مذاہب ثابت کرسکے ۔ اس صورت میں ضرور کسی ایسے شخص کی تقلید کرنی ہوگی کہ نہ اُس کو دین سے کام ہے نہ مذہب سے ، غرض بلکہ صرف جاہلوں کا مقتدا بننا اور اُن کو اپنے مقلد بنانا منظور ہوگا ۔
اس موقع میں بعض لوگ یہ دھوکا دیتے ہیں کہ ہم اپنی تقلید کرانا نہیں چاہتے بلکہ عمل بالحدیث چاہتے ہیں ۔ یہ ایسا فقرہ ہے کہ بھولے بھالے مسلمانوں کے دلوں پر افسوںکا کام کر جاتا ہے ، مگر اہل علم سمجھتے ہیں کہ عمل بالحدیث ہر شخص کا کام نہیں ، اس کے لئے اعلیٰ درجہ کی قوت اجتہاد یہ کی ضرورت ہے ۔

وہی حدیثیں معتبر ہیں جو مجتہدِ مطلق کے ذریعہ سے پہونچیں

دیکھئے ! عمر رضی اللہ عنہ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جب مناظرہ کیا کہ زکوٰۃ نہ دینے والوں سے جہاد درست نہیں ، اُس وقت صحیح حدیث پیش کی ، جس کو صدیق اکبرؓ بھی جانتے تھے ، باوجود اس کے انہوں نے جہاد کی ضرورت سمجھی اور خدا جانے کونسی آیات و احادیث پیش نظر ہو گئی تھیں کہ انہوں نے اُس حدیث پر عمل کرنا درست نہیں سمجھا ۔ آخر کُل صحابہ نے اُس حدیث کو ترک کر کے صدیق اکبرؓ کے اجتہاد ہی کو مان لیا ۔
اس سے ظاہر ہے کہ وہی احادیث اور اُن کے معنی دین میں معتبر ہیں جو مجتہدوں کے ذریعہ سے پہونچیں ۔ اگر صحیح حدیث کے پیش ہوتے ہی اُس پر عمل واجب ہوتا تو صدیق اکبرؓ کو اجتہاد پر کبھی جرأت نہ ہوتی ۔ غرضکہ بخاری شریف کی حدیثیں اُسی وقت واجب العمل ہوں گی کہ مستند مجتہد کے اجتہاد میں بھی واجب العمل قرار پائیں ۔
مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نے ’’عقد الجید‘‘ میں لکھا ہے کہ کسی خصوصیت مقام اور قرائن خاصہ کی وجہ سے صحت حدیث ثابت ہوتی ہے اور جدلی امور کلیہ سے اُس کا ابطال کرنا چاہتا ہے

۔ سو اُس کی مثال ایسی ہوگی کہ کسی پتھر کو مثلاً دیکھنے سے یقین ہوتا ہے کہ وہ پتھر ہے ، مگر جدلی اُس میں شک ڈالنے کی غرض سے کہتا ہے کہ ہر چیز کی شناخت رنگ اور شکل وغیرہ سے ہوتی ہے اور چونکہ ان امور میں تشابہ ہوتا ہے ، اس لئے اُس کے پتھر ہونے کا یقین نہیں ہوسکتا ۔
جب قرائن خاصہ سے حدیث کی صحت ثابت ہوجائے تو جدلی کا قول قابل اعتبار نہ ہوگا بلکہ ایسے موقع میں سکون اور اطمینان قلب دیکھا جاتا ہے ، جو مشاہدہ اور قرائن سے حاصل ہو۔ ا نتہی ۔
اس تقریر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی مسئلہ میں صحت کسی حدیث کی ثابت ہوجائے اور دوسرے احادیث یا قرائن سے مجتہد کو سکون اور اطمینان حاصل نہ ہو تو اُن کو ضرور ہوگا کہ اجتہاد کر کے ایسا حکم مستنبط کریں جس سے ان کو اطمینان حاصل ہو ۔ اسی وجہ سے اکثر اُن کو صحیح حدیثیں چھوڑ نے کی ضرورت ہوتی ہے ، جیساکہ صحابۂ کبار کے طریقۂ عمل سے ثابت ہوا ۔

اس زمانہ میں کوئی مجتہد نہیں ہوسکتا

غرضکہ جن کو درجۂ اجتہاد حاصل نہیں اُن کو سکون اور اطمینان قلبی حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ تحقیق کرلیں کہ معتمد علیہ مجتہد نے بھی حدیث مبحوث عنہ کو واجب العمل قرار دیا یا نہیں ۔ اگر ہر طالب علم کے کہنے سے عمل بالحدیث کرنے لگیں تو اُن طلبہ کے مقلد بازیچۂ اطفال بن جائیں گے ، کیونکہ اس زمانہ میں مجتہد بننا ہرگز قرین قیاس نہیں ۔ اس وجہ سے مجتہد کو ضرور ہے کہ اجتہاد کر کے ہر مسئلہ میں اطمینانی کیفیت حاصل کرے کہ یہی شارع کی مراد ہے اور کسی مسئلۂ دینیہ میں اطمینانی کیفیت اُس وقت تک نہیں پیدا ہوسکتی کہ تمام آیات اور تمام احادیث اور تمام اقوال صحابہ جو اُس مسئلہ سے متعلق ہیں‘ پیش نظر نہ ہوں ، جیساکہ مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نے ’’انصاف ‘‘میں لکھا ہے : ’’و ثانیھا ان یجمع الاحادیث و الآثار فیحصل احکامھا و ینبہ لأخذ الفقہ منھا و یجمع مختلفھا‘‘۔

اور صحیح صحیح احادیث و آثار کا مفقود ہوجانا یقیناً ثابت ہے تو یہ چند موجودہ حدیثیں اُن لاکھوں کے قائم مقام کیونکر ہوسکیں ؟ پھر احادیث میں قابل اعتماد وہ حدیثیں ہوتی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری قول یا فعل مذکور ہو ، جیسا کہ بخاری شریف میں ہے : قال الزھری و انما یؤخذ من امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الاٰخر فالاٰخر ۔
جب لاکھوں حدیثیں تلف ہوگئیں تو اس قسم کی بھی سینکڑوں بلکہ ہزاروں ضرور تلف ہوئی ہوں گی ۔
ہاں اگر اصحاب صحاح ستہ یہ تصریح کر دیتے کہ کل صحیح حدیثیں ہمیں پہونچ گئی ہیں ، مگر کسی مصلحت سے ہم نے بیکار حدیثوں کو ترک کر دیا اور کام کام کی حدیثیں صحاح میں لکھدیں تو اُن کے اعتماد پر یہ کہنا ممکن تھا کہ تلف شدہ حدیثوں کو دین کے معاملہ میں کوئی دخل نہ تھا ، اس لئے اُن کا تلف ہونا ہی اچھا ہوا ، جس سے حفاظت کی مصیبت سر سے ٹل گئی ، مگر یہ بھی ثابت نہ ہوا ۔ اس لئے کہ کسی محدث نے یہ دعویٰ کیا ہی نہیں کہ مجھے کل صحیح حدیثیں پہونچی ہیں اور میں نے اُن حدیثوں میں سے وہی حدیثیں انتخاب کر کے اپنی کتاب میں لکھی ہیںجن میں حضرت کے آخری قول اور فعل ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو صحاح ستہ میں ہرمسئلہ سے متعلق ایک ہی حدیث ہوتی ، حالانکہ بخاری وغیرہ کتب صحاح میں اکثر متعارض حدیثیں موجود ہیں ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ صرف ناسخ اور معمول بھا حدیثوں کے لکھنے کا انہوں نے التزام نہیں کیا ۔

صحاح میں کل حدیثیں واجب العمل نہیں

دیکھئے بخاری شریف میں یہ حدیث موجود ہے: ’’ قال ابو الدرداء : کیف کان عبد اللہ یقرأ ( اللیل اذا یغشی ) قال ( و الذکر والانثی ) فقال ابو الدرداء: مازال ھولاء حتی کادوا یشککونی و قد سمعتھا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘

اگر بخاری شریف میں کل روایتیں واجب العمل ہوتیں تو سورۂ واللیل میں کوئی نہیں تو اہلحدیث ضرور ’’والذکر والانثی‘‘ پڑھتے حالانکہ غالباً وہ بھی ایسا نہ پڑھتے ہوں گے ۔
اس سے ظاہر ہے کہ بخاری شریف میں بھی واجب العمل اور غیر واجب العمل ہر قسم کی روایتیں موجود ہیں ۔ اب بتائیے کہ کیا ممکن ہے کہ آخری زمانہ والے اجتہاد کے مدعی تمام صحیح اور ناسخ حدیثیں حاصل کرلیں ؛جس سے اطمینانی کیفیت دل میں پیدا ہو ؟ اس زمانہ میں اطمینانی کیفیت پیدا ہونے کی تدبیر سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ لاکھوں حدیثیں ’’کان لم یکن ‘‘فرض کر لی جائیں اور یہ خیال کرلیاجائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ فرمایا ہی نہیں ، مگر یہ تصور خلاف واقع ہوگا اور جو اجتہاد اُس پر متفرع ہوگا وہ ’’بناء الفاسد علی الفاسد‘‘ ہوگی ۔

سوائے فقہ کے کسی کتاب میں یہ بات نہیں کہ وہ خلاصۂ کل احادیث ہو

اگر انصاف سے دیکھا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ چند صحاح ستہ کی حدیثیں اُ س وقت غنیمت اور کافی سمجھی جاتی کہ کل احادیث کا ماحصل اور خلاصہ ہمارے پاس نہ ہوتا ۔ مگر جب اکابر دین کی شہادتوں سے ثابت ہوگیاکہ فقہ حنفیہ تقریباً کل حدیثوں کا ملخص ہے ، تو مقتضائے عقل یہی ہے کہ اسی کو قائم مقام کل حدیثوں کے تصور کرلیں ۔
چونکہ گل رفت و گلستان شد خراب بوی گل را از کہ جویم از گلاب
یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خود محدثین نے کہا ہے کہ ابو حنیفہؒ نے احادیث کو محفوظ کر دیا ۔
غرضکہ جب امام صاحب نے تمام آیات و احادیث و آثار کو جمع کر کے اُن سے مسائل

جزئیہ کے استخراج کا بار گراں اپنے ذمہ لیا اور اُس کام میں جس قدر ضرورتیں پیش آئیں سب کو نہایت اہتمام اور احتیاط سے پوری کیا ، تواُن کی محنت شاقہ کو ’’ کأن لم یکن ‘‘ کر کے طے شدہ امور کو بے بضاعتی کی حالت میں از سرنو شروع کرنا کس قدر بے ضرورت اور فضول ہے ۔ اگر اسی فقہ پر ظن غالب کرلیا جائے کہ تمام احادیث و آثار کا خلاصہ ہے تو اس کو تائید دینے والے بہت سے اکابر دین کی شہادتیں موجود ہیں ۔ بخلاف اس کے اب جو اجتہادکیا جائیگا اُس پر ہرگز حسن ظن نہیں ہوسکتا کہ وہ کل احادیث کا خلاصہ ہے اور جب تک کسی چیز پر ظن غالب نہ ہو وہ شریعت میں قابل اعتبار نہیں ۔ اسی وجہ سے اُمت مرحومہ میں مذاہب حقہ وہی چار تسلیم کئے گئے ہیں جن کی تدوین صحاح ستہ کی تدوین سے پہلے ہوچکی ہے ۔ جس زمانہ میں تقریباً کل صحیح حدیثیں موجود تھیں اور اُس کے بعد مفقود ہوگئیں ۔
مولانا شاہ ولی اللہ صاحب ’’انصاف ‘‘میں لکھے ہیں کہ اہل حق کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ واجب اصلی یہ ہے کہ اُمت میں ایک شخص ایسا ہو کہ احکام فرعیہ اور تفصیلیہ سے معلوم کرے چونکہ مقدمۂ واجب ، واجب ہے ، تو اگر کسی واجب کے حاصل کرنے کے کئی طریقہ ہوں تو کسی ایک طریقہ کا حاصل کرنا واجب ہوگا ۔ اورجب ایک ہی طریقہ اس کا معین ہوجائے تو صرف اسی طریقہ کو حاصل کرنا واجب ہے ۔ مثلاً کوئی شخص حالت مخمصہ میں مبتلا ہو ، جس سے خوف ہلاکت ہو تو اُس مخمصہ کو دفع کرنے کے لئے غذا خریدے یا جنگل سے میوے وغیرہ چن کر کھائے یا شکار کرے ، غرضکہ ان مختلف طریقوں سے کوئی ایک طریقہ دفع ہلاکت کے لئے اختیار کرنا ضرور ہوگا ۔ اور اگر سب طریقے مسدود ہوں اور ایک ہی طریقہ کھلا ہو ، مثلاً خریدی غذا کا تو اُس پر واجب ہوگا کہ کچھ خرید کر کے کھائے انتہی ۔
دیکھئے ! جب کل احادیث خصوصاً ناسخ حدیثوں کے حاصل کرنے کے سب طریقے مسدود ہوگئے ، اس لئے کہ لاکھوں حدیثیں مفقود ہوگئیں تو واجب بھی ہے کہ فقہ کی تقلید کی

جائے ، جس کے خلاصہ احادیث ہونے کا ظن غالب ہے ؟ کیونکہ بخاری وغیرہ پر ظن غالب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کل احادیث کا مجموعہ یا خلاصہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ لاکھوں علماء باوجود یکہ صحاح ستہ کو خوب جانتے ، مگر مذہب ہی کی تقلید کرتے رہے ۔

Exit mobile version