عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال پر اہلِ بصرہ کا غم والم:
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاصد جب بھی بصرہ پہنچتاتو لوگ خوشی اور مسرت سے اس کا استقبال کرتے کیونکہ جب بھی وہ آتاتو فقراء کی خبر گیری کر کے ان پر بخشش و عطا اورمال و دولت نچھاور کرتا۔ چنانچہ، جب قاصد موت کی خبر لے کر بصرہ پہنچاتو لوگ اپنی عادت کے مطابق خوش و خرم ا س کے پاس آئے۔ لیکن جب اس نے انہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خبر سنائی تو سب لوگ پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگے۔ اہلِ بصرہ کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرنے کا غم اس لئے زیادہ تھا کیونکہ یہ ان کے لئے بہت بڑی مصیبت تھی۔
منقول ہے کہ ایک جنّ نے ان الفاظ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرثیہ کہا (یعنی اظہارِ غم کے اشعار کہے):
؎ عَنَّا جَزَاکَ مَلِیْکُ النَّاسِ صَالِحَۃً فِیْ جَنَّۃِ الْخُلْدِ وَالْفِرْدَوسِ یَا عُمَرُ!
أَنْتَ الَّذِیْ لَا نَرٰی عَدْلاً نَسُرُّ بِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ مَا جَرٰی شَمْسٌ وَلَا قَمَرُ
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔اے سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ!لوگوں کاعظیم بادشاہ عَزَّوَجَلَّ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہماری طرف سے جنت الخلداور جنت الفردوس میں بہترین جزاء عطافرمائے۔ (آمین)
(۲)۔۔۔۔۔۔ جب تک سورج چاند طلوع ہوتے رہیں گے، ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد ایسا عادل خلیفہ کبھی نہ پائیں گے جسے ہم فریاد کر سکیں۔
(اخبار مکۃ للفاکھی،ذکر السمر والحدیث فی المسجد الحرام، الحدیث۱۳۳۹،ج۲،ص۱۵۱)
جب حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتقال فرمایا تو مشہور عربی شاعر جریر نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرثیہ ان الفاظ میں لکھا:
؎ تَنْعٰیالنُّعَاۃُ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَنا مُفَضَّلاً حَجَّ بَیْتِ اللہِ وَاِعْتَمَرَا
حَمَلَتْ أَمْرًا عَظِیْمًا فَاسْتَطَعْتُ لَہٗ وَسِرْتُ فِیْہٖ بِاَمْرِ اللہِ مُؤْتَمِرَا
ترجمہ: (۱)۔۔۔۔۔۔خبر دینے والوں نے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خبر کوحج وعمرہ کے ساتھ ملا دیا۔ انہوں نے ایک بہت بڑی بات کو برداشت کیا اور میں نے اس اَلَم ناک خبر کو محض اس وجہ سے برداشت کر لیا کہ میں احکامِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی بجاآوری میں مگن تھا۔
(حلیۃ الاولیاء، عمر بن عبد العزیز، الحدیث۷۳۷۴، ج۵،ص ۳۵۵۔بتغیرٍ)