عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کا وصی:
مسلمہ بن عبدالملک حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض الموت میں ان کے پاس حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے: ”یاامیرالمؤمنین! آپ اپنے خاندان کا وصی کس کو مقرر کرتے ہیں؟” ارشاد فرمایا:”میرا وصی وہ ہے کہ جب میں ذکر ِ الٰہی سے غافل ہوجاؤں تو وہ مجھے یاد دلائے۔” مسلمہ نے دوبارہ پوچھا: ”اپنے خاندان کا وصی کس کو بنائیں گے؟” توارشاد فرمایا: ”ان کاوالی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے اور وہی صالحین کا والی ہے۔”
(الطبقات الکبرٰی،الرقم۹۹۵،عمر بن عبد العزیز،ج۵، ص۳۱۷)
بعد ِ وصال چہرہ جگمگا اٹھا:
حضرت سیِّدُنا رجاء بن حیوٰۃ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ” حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مرضِ وصال میں مجھے حکم فرمایا: ”اے رجاء !تم مجھے غسل دینے، کفن پہنانے اور لحد میں اتارنے والوں میں رہنا۔ جب لوگ مجھے لحد میں اُتار دیں تو کفن کی گِرہ کھول کر میرا چہرہ دیکھنا کیونکہ میں نے تین خلفاء کو دفن کیاہے۔ جب انہیں قبر میں اُتار کر کفن کی گِرہ کھولی اور چہرہ دیکھا تو وہ قبلہ سے پِھر کر سیاہ ہو چکا تھا۔”حضرت سیِّدُنا رجاء علیہ رحمۃ ربِّ العُلٰی کا بیان ہے: ”جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتقال فرمایا تو میں بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دینے والوں میں شامل تھا۔ تدفین کے بعد جب میں نے گِرہ کھول کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرۂ اَنور دیکھا تو وہ قبلہ رُخ تھا اور چودہویں کے چاند کی طرح چَمَک دَمَک رہا تھا۔یہ دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔”
(الطبقات الکبری لابن سعد،الرقم۹۹۵عمر بن عبد العزیز،ج۵،ص۳۱۸۔بتغیرٍقلیلٍ)
حضرت سیِّدُنا عبیدہ بن حسان علیہ رحمۃاللہ الرحمن فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاوقتِ وصال قریب آیاتو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”سب میرے پاس سے چلے جاؤ،یہاں کوئی شخص نہ رہے۔مسلمہ بن عبدالملک بھی وہاں موجودتھے۔ چنانچہ، سب لوگ باہر چلے گئے جبکہ مسلمہ بن عبد الملک اور ان کی بہن حضرت سیِّدَتُنا فاطمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا جو
1 ۔۔۔۔۔۔مفسرشہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل، سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ” سیاہ رنگ، بدبودار جن سے آگ کے شعلے اور زیادہ تیز ہوجائیں ۔(مدارک و خازن) تفسیرِ بیضاوی میں ہے کہ ان کے بدنوں پر رال لیپ دی جائے گی۔ وہ مثل کُرتے کے ہوجائے گی، اس کی سوزش اور اس کے رنگ کی وحشت و بدبو سے تکلیف پائیں گے ۔”
کہ حضرت سیِّدُنا عمربن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ تھیں، دروازے کی دہلیز پر بیٹھ گئے۔ پھر لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا: ”ان مبارک چہروں کو مرحبا! یہ پیاری صورتیں نہ انسانوں کی ہیں،نہ جِنّوں کی ۔”راوی کا بیان ہے کہ”ہم نے گھرکے ایک کونے سے اس آیۂ کریمہ کی تلاوت سُنی :
(2) تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ؕ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیۡنَ ﴿83﴾
ترجمۂ کنزالایمان :یہ آخرت کا گھر ہم ان کے لئے کرتے ہیں جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساداور عاقبت پرہیزگاروں ہی کی ہے۔ (پ20،القصص:83)
پھرجب لوگ کمرے میں آئے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفرِآخرت پر روانہ ہوچکے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرۂ اَقدَس قبلہ رو تھا اور آنکھیں اور منہ بند تھے۔
(سیراعلام النبلاء،الرقم۶۶۲عمر بن عبد العزیز،ج۵،ص۵۹۶۔الطبقات الکبری لابن سعد، الرقم۹۹۵عمر بن عبد العزیز،ج ۵ ، ص ۳۱۸)
حضرت سیِّدُنا امام اوزاعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:”میں پسند نہیں کرتاکہ مجھ پرموت کی سختیوں کو آسان کر دیاجائے کیونکہ یہی تو وہ آخری چیز ہے جو بندۂ مؤمن کو اجر وثواب عطا کرتی ہے۔”
(حلیۃ الاولیاء،عمر بن عبد العزیز،الحدیث۷۳۵۵ ،ج۵،ص۳۵0، بتغیرٍ)
یہ بھی منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”میں پسندنہیں کرتاکہ مجھ سے موت کی سختیاں آسان کر دی جائیں کیونکہ یہی تو وہ آخری چیز ہے جس کے ذریعے بندۂ مؤمن کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں۔”
(الزھد للامام احمد بن حنبل،اخبار عمر بن عبد العزیز،الحدیث۱۷۱۸،ص۳0۴،بتغیرٍ)