علامہ احمد یار نعیمیؒ کی نعتیہ شاعری

ڈاکٹر سراج احمد قادری۔ بھارت

علامہ احمد یار نعیمیؒ کی نعتیہ شاعری

نعت درحقیقت ایک با عظمت اور مقدس صنف سخن ہے اس صنف کی طرف ہر وہ شاعر و سخن ور متوجہ ہوا جس کے اندر تخلیق شعر کا قدرے بھی مادہ موجود تھا۔ چوںکہ یہ صنف ادب سے زیادہ ایمان و عقیدے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے ہر شاعر و سخن ور نے نعت کے اشعار کہنا اپنے ایمان کا فریضہ اور محبت رسول اکرمﷺ کا تقاضا سمجھا اور اپنی سکت بھر نعت گوئی کے عمل میں مصروف رہا۔
ان نعت گو شعرا کی جماعت میں صحابہ رسول اکرمﷺ سے لے کر اپنے زمانے کے جید علمائے کرام، صوفیائے عظام بزرگان دین مسلمانان عالم اسلام اور غیر مسلم نعت گو شعرا بھی ہیں۔ جسے اپنی زبان میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کے اس راہ کے مسافر یا راہ رو عوام و خواص دونوں گروہ کے لوگ ہیں۔ ظاہرسی بات ہے جس راہ کے راہ رو عوام و خواص دونوں طبقے کے لوگ ہوں تو دونوں کی روش میں نمایاں فرق ہونا یقینی ہے۔ یہی وجہ رہی کہ اس صنفِ سخن میں معیاری اور غیرمعیاری دونوں طرح کے کلام پائے جاتے ہیں۔ میں اس مقام پر واضح کرنا چاہتا ہوں کے صرف صنف نعت ہی میں معیاری اور غیر معیاری کلام نہیں پائے جاتے ہیں بلکہ دیگر اصناف ادب کا بھی یہی حال ہے۔
نعت کے اشعار کہہ کر نعت گونے تو اپنا حق ایمانی اور محبت رسولﷺ کا تقاضا تو پورا کر دیا مگر اس صنف کے ساتھ ستم یہ ہوا کہ غیر معیاری نعتیہ کلام کی وجہ سے اس کا پورا سرمایہ اہل علم و ادب یا نا قدین ادب کی فکری توجہ سے محروم رہا۔ جب کہ دیگر اصناف میں چاہے جتنا غیرمعیاری کلام کیوں نہ ہو نا قدین ادب اس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لے کر اہل فکر و دانش کو اس کی طرف متوجہ ضرور کرتے ہیں۔
صنفِ نعت کی تنقید کی طرف نا قدین ادب کے متوجہ نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ اس صنف میں فن سے زیادہ معانی و مفاہیم سے بحث ہوتی ہے اور معانی و مفاہیم کا تعین قرآن و احادیث، سیرت رسول، خصائص و فضائل رسولﷺ سے کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے مذہبی علوم میں علم راسخ کی ضرورت درکار ہوتی ہے جو کی جید عالم دین ہی کر سکتا ہے اس لیے نا قدین ادب اس فن کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اور سوچتے رہے کہ کون اس صنف پر تنقید کا قلم اٹھا کر خود کو گردن زدنی کا شکار ہونے جائے۔ اس لیے کے اگر کسی شعر کے معانی و مفاہیم صحیح طور پر قرآن پاک، حدیث رسول یا سیرت رسولﷺ سے متعین نہ ہوسکے تو پھر علمائے کرام کا قلم ان کا محاسبہ و محاکمہ فرمائے گا جو خود ان کی اپنی علمی شوکت کے شایان شان نہیں۔
غیرمعیاری نعتیہ کلام در آنے کی وجہ
نعت کے فن میں غیرمعیاری کلام یا خلاف شرع کلام کے درآنے کی وجہ یہ رہی کے ہر آدمی قرآن و حدیث کا جید عالم نہیں ہو سکتا اور جب قرآن و حدیث پر گرفت مضبوط نہیں ہوگی تو یقینا اندازِ گفتگو اندازِ تدبر میں فرق ہوگا بالکل یہی فرق نعت گو شعرا کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ جو نعت گو شعرا قرآن و حدیث کا درک رکھتے ہیں۔ ان کا کلام تو معیاری اور بلیغ ہوتا ہے مگر جو نعت گو شعرا قرآن و حدیث کا راسخ علم نہیں رکھتے۔ قرآن و حدیث پر ان کی پکڑ مضبوط نہیں ہے یا وہ سطحی اور عوامی علم رکھتے ہیں تو ان کے کلام میں کہیں نہ کہیں جھول ضرور آ جاتا ہے۔ اس بات کو میں ایک مثال کے ذریعے واضح کرنا چاہتا ہوں کے ایک ہی موضوع سے متعلق دو نعت گو شعرا نے ایک ایک شعر موزوں کیے اور دونوں عالم دین بھی ہیں مگر دونوں کے تدبر اور شعر گوئی میں بہت فرق ہے حضرت مولانا غلام محمد ترنم صاحب فرماتے ہیں:
اب دل میں ہیں ترنم یاد نبی کے جلوے
غم اپنی زندگی کے ہم نے بھلا دیے ہیں٭۱
اور حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں
جس راہ چل پڑے ہیں کوچے بسا دیے ہیں٭۲
ان دونوں اشعار کا جب ہم گہرائی و گیرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو دونوں نعت گو شعرا کے شعر کا ماحصل ’’غم سے نجات‘‘ نظر آتا ہے مگر دونوں حضرات نے غم سے نجات کے الگ الگ طریقے بیان فرمائے ہیں۔ حضرت مولانا غلام محمد ترنم صاحب غم سے نجات نبی اکرمﷺ کی یاد کے جلوئوں سے فرمایا ہے۔ اور حضرت مولانا احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ غم سے نجات یاد نبی کی خوش بو سے فرمایا ہے۔ خوش بو اور جلوہ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور دونوں کی تاثیر الگ الگ ہے۔ یقینا خوش بو سے آدمی ایک لمحے کے لیے تازہ دم اور مفرح محسوس کرنے لگتا ہے۔ خوش بو سے تو غم غلط کیا جاسکتا ہے مگر جلوے سے غم غلط کرنے کی بات کم سمجھ میں آتی ہے۔ علامہ حسن رضا خان حسن بریلوی علیہ الرحمہ بھی ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
خزان غم سے رکھتا دور مجھ کو اس کے صدقے میں
جو گل اے باغباں ہے عطر تیرے باغ صنعت کا٭۳
چناںچہ مولانا احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ مولانا حسن رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری کے بارے میں اظہارِ خیال فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
میں اپنے چھوٹے بھائی حسن میاں یا حضرت کافی مراد آبادی کا کلام سنتا ہوں اس لیے کہ ان کا کلام میزانِ شریعت میں تلا ہوا ہوتا ہے اگر چہ حضرت کافی کے یہاں لفظ رعنا کا استعمال بھی موجود ہے۔ اگر وہ اپنی اس غلطی پر آگاہ ہوجاتے تو یقینا اس لفظ کو بدل دیتے۔٭۴
گویا کہ دو طبیب ایک مریض کا علاج کر رہے ہیں مگر دونوں کے طریقہ علاج میں نمایاں فرق ہے۔ مولانا غلام محمد ترنم صاحب غم زندگی کا علاج یاد نبی کے جلوئوں سے کر رہے ہیں اور مولانا احمد رضا بریلوی اور مولانا حسن رضا بریلوی خوش بو سے کر رہے ہیں۔ آپ یقینا بول اٹھیں گے کہ مولانا احمد رضا بریلوی اور مولانا حسن رضا بریلوی طبیب حاذق کے مرتبے پر فائض ہیں اور مولانا غلام محمد ترنم صاحب صرف طبیب کے مرتبے پر فائض ہیں۔
یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ مولانا غلام محمد صاحب ترنم بھی عالم دین ہیں اور مولانا احمد رضا بریلوی اور مولانا حسن رضا بریلوی بھی عالم دین ہیں۔ اور جب نعت گوئی کے میدان میں علمائے کرام کی فکر میں تفاوت ہوسکتا ہے تو جو حضرات قرآن و حدیث، سیرت رسول و خصائص و فضائل رسولﷺ سے نا واقف ہیں یا ان کا علم محدود و سطحی ہے تو ان کی فکر ان کے تدبر میں کتنا فرق ہوگا۔ اگرچہ مذکورہ اشعار میں فنی و ادبی اعتبار سے کوئی سقم نہیں ہے مگر فکری اعتبار سے تو ہے ہی میں نے اس تمہید کو محض اس اعتبار سے تحریر کیا ہے کہ حضرت علامہ مفتی احمد یار خان بدایونی علیہ الرحمہ اپنے زمانے کے جید عالمِ دین تھے۔ انھوںنے قرآن پاک کی تفسیر ’’تفسیرِ نعیمی‘‘ اور حدیث پاک کی مشہور کتاب ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کی شرح و ترجمہ تحریر فرمایا ہے ان کا کلام یا ان کا دیوان اس قابل ہے کہ اس کا جائزہ لیا جائے۔
مفسرِ قرآن حضرت علامہ مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ کا شمار اکابر اہل سنت میں ہوتا ہے آپ کی ولادت ہندوستان کے مشہور شہر بدایوں کے قصبہ اوجھیانی کے محلہ کھیڑا میں ماہ شوال المکرم ۱۳۲۴ھ ۱۹۰۶ء میں ہوئی۔ اوجھیانی ریلوے اسٹیشن بدایوں شہر سے ۱۳ کلو میٹر کی دُوری پر واقع ہے۔ آپ کے والد ماجد حضرت علامہ محمد یار خان بدایونی علیہ الرحمہ اپنے زمانے کے ایک جید عالم دین تھے فارسی زبان و ادب میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپ نے اپنے قصبہ اوجھیانی کی ہی جامع مسجد میں ایک مکتب قائم کر رکھا تھا جہاں وہ طلبہ کو دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرتے تھے۔ حضرت مفتی احمد یار خان صاحب علیہ الرحمہ نے بھی اوّلاً اسی مکتب میں آغوشِ پدر میں تعلیم حاصل کی۔ حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب آپ کے اکتسابِ علم کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
مولانا مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ پھر مدرستہ شمس العلوم بدایوں میں داخل ہو کر تین سال تک ۱۹۱۶ء تا ۱۹۱۹ء مولانا قدیر بخش بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور دیگر اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ اسی زمانے میں بریلی شریف جاکر حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ ابتدائی کتب محنت و جان فشانی سے پڑھیں، امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔ مولانا حافظ بخش بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (مہتمم) نے خاص طور پر ان کی تعریف کی اور انھیں انعام کا مستحق قرار دیا، ماہنامہ شمس العلوم، بدایوں میں بے کیفیت شائع ہوئی۔٭۵
مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کی بارگاہ میں حاضری کے متعلق خود حضرت مفتی احمد یار خان تحریر فرماتے ہیں:
میری عمر اس وقت کوئی دس بارہ کے لگ بھگ ہوگی اور میں بدایوں میں تھا۔ ان دنوں ۲۷؍ رجب قریب تھی اور اعلیٰ حضرت کے یہاں تقریب معراج کی تیاریاں زوروں پر تھیں، آپ اس تقریب کے لیے بڑا اہتمام فرماتے اس مصروفیت کے باعث ہمیں صرف ایک مجلس میں حاضری نصیب ہوسکی جس میں اعلیٰ حضرت کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔٭۶
حضرت مفتی احمد یار خاں صاحب کی شاعری کے حوالے سے حضرت مولانا محمد احمد صاحب صدر مدرس الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ تحریر فرماتے ہیں:
شعرو سخن سے بھی مفتی صاحب کو تعلق تھا۔ سالک تخلص فرماتے تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’’دیوان سالک کی شکل میں پاکستان سے شائع ہو چکا ہے۔ فن شعر سے ان کی وابستگی کا واقعہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ ۱۳۵۵ھ ۱۹۳۵ء میں جب وہ کچھوچھ شریف ، شیخ الحدیث کی حیثیت سے پہنچے تو علامہ حکیم سید نذر اشرف صاحب فاضل علیہ الرحمہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ حکیم صاحب نے ابتدائی ذکر و تعارف کے بعد برملا سوال کیا ’’آپ کو شعرو سخن سے بھی لگائو ہے؟ مفتی صاحب نے نفی میں جواب دیا تو فرمایا آپ نصف عالم معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ حکیم صاحب کی یہ بات کچھ اس انداز سے مفتی صاحب کے دماغ میں اتر گئی کے آپ نے باقاعدہ فنِ شعر گوئی کی تحصیل کی اور حکیم صاحب سے برابر اصلاح لیا کرتے اس طرح جلد ہی آپ ایک باکمال شاعر بھی ہوگئے۔٭۷
حضرت مفتی احمد یار خان صاحب علیہ الرحمہ کے دیوان ’’دیوان سالک‘‘ کی زیارت کا شرف پہلی بار مکتبہ رضویہ ۵۱۰؍ مٹیا محل دہلی سے شائع شدہ حضرت مفتی صاحب کے مجموعہ رسائل ’’رسائل نعیمیہ‘‘ میں ہوا۔ جسے مکتبہ رضویہ مذکورہ نے حضرت مفتی صاحب کے آٹھ مجموعہ رسائل میں شائع کیا ہے اور سر فہرست دیوان سالک کو ہی شمار کرایا ہے۔ اس مجموعہ رسائل میں دیوان سالک کے علاوہ حضرت مفتی صاحب کے جن رسائل کو شامل کیا ہے ان کی تفصیل اس طرح ہے:
(۱) رسائل نور (۲) سلطنت مصطفی (۳) الکلام المقبول (۴) ایک اسلام
(۵) اسلام کی چار اصولی اصطلاحیں (۶) اسرار الاحکام (۷) درس القرآن۔
میری سمجھ سے بالا تر بات ہے کہ دیوان سالک کو کس طرح مکتبہ رضویہ مذکورہ کے مالک نے مجموعہ رسائل میں شمار کیا ہے۔ اگر نشرواشاعت کا کوئی قاعدہ کلیہ ہو تو میں اس سے نابلد ہوں اور اگر ان کا مقصد حضرت مفتی صاحب کی تصنیفات و تالیفات کا فروغ اور تعارف ہے تو انھیں کم از کم دیوان سالک کو خوب صورت اور معیاری انوار میں الگ سے مقدمے کے ساتھ شائع کرنا چاہیے تھا جس سے کہ اس کا صحیح تعارف ہوسکتا۔
دیوان سالک حضرت مفتی صاحب کا یہ دیوان ۴۴، صفحات کی ضخامت پر مشتمل ہے۔ ممکن ہے ان کا اور بھی کلام ہو جو مجھ ناچیز کو ہزار کوششوں کے باوجود دستیاب نہیں ہوسکا۔
دیوان سالک کا آغاز باقاعدہ ’’حمد باری تعالیٰ‘‘ سے ہوا ہے جس کا مطلع ہے:
اے خالق و مالک رب علیٰ سبحان اللہ سبحان اللہ
تو رب ہے میرا میں بندہ تیرا سبحان اللہ سبحان اللہ
اور مقطع ہے:
یہ سالکؔ مجرم آیا ہے اور خالی جھولی لایا ہے
دے صدقہ رحمت عالم کا سبحان اللہ، سبحان اللہ
اس کے بعد نعت نبی اکرمﷺ کا آغاز ہوتا ہے پہلی نعت پاک کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
زمانہ نے زمانہ میں سخی ایسا کہیں دیکھا
لبوں پر جس کے سائل نے نہیں آتے نہیں دیکھا
وہ ہادی جس نے دنیا کو خدا والا بنا ڈالا
دلوں کو جس نے چمکا یا عرب کا مہہ جبیں دیکھا
بسے جو فرش پر اور عرش تک اس کی حکومت ہو
وہ سلطان جہاں طیبہ کا اک ناقہ نشیں دیکھا
بھلا عالم کی شئی مخفی رہے اس چشم حق بیں سے
کے جس نے حالق عالم کو بے شک بایقیں دیکھا
ہو لب پر امتی جس کے کہیں جب انبیا نفسی
دو عالم نے اسے سالکؔ شفیع المذنبیں دیکھا٭۹
اس کے بعد مسلسل نعت پاک کی جلوہ سامانیاں ہیں ایک نعت پاک میں حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی حسرتوں کو ملاحظہ فرمائیں وہ فرماتے ہیں:
خاک مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا
ہوتی رہ مدینہ میرا غبار ہوتا
آقا اگر کرم سے طیبہ مجھے بلاتے
روضے یہ صدقہ ہوتا ان پر نثار ہوتا
وہ بے کسوں کے آقا بے کس کو گر بلاتے
کیوں سب کی ٹھوکروں پر پڑ کر میں خوار ہوتا
طیبہ میں گر میسر دوگز زمین ہوتی
ان کے قریب بستادل کو قرار ہوتا
مرمٹ کے خوب لگتی مٹی مری ٹھکانے
گر ان کی رہ گزر پر میرا مزار ہوتا٭۱۰
دیوانِ سالکؔ میں ایک ترانۂ ولادت ہے جو چھوٹی سی زمین ہے فرماتے ہیں:
ماہ ربیع الاوّل آیا
رب کی رحمت ساتھ میں لایا
وقت مبارک ہے رات سہانی
صبح کا تڑکا ہے نورانی
پیر کا دن تاریخ ہے بارہ
فرش پہ چمکا عرشی تارہ
آج کی رات برات رچی ہے
آمنہ کے گھر دھوم مچی ہے
گھر میں حوریں اور ملک ہیں
جن کی قطاریں تابہ فلک ہیں
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا
شور مچا اک صلی علیٰ کا
لو وہ اب اٹھی گرد سواری
پیدا ہوئے محبوب باری
باغ خلیل کا وہ گل زیبا
کشت صفی کا نخل تمنا
رحمت عالم نور مجسم
صلی اللہ علیہ وسلم
تم بھی اٹھو اب وقت ادب ہے
ذکر ولادت شاہ عرب ہے
تخت ہے ان کا تاج ہے ان کا
دونوں جہاں میں راج ہے ان کا
اور مقطع میں ذکر ولادت پاک کا ماحصل عرض کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
چشم کرم للہ ادھر ہو
سالک خستہ پر بھی نظر ہو٭۱۱
حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے ولادتِ سرکار کے حوالے سے قصیدہ تحریر فرمایا ہے جس میں حضرت مولانا احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے قصیدہ معراجیہ کا رنگ اور اس کی فکری جھلک نمایاں ہے فرماتے ہیں:
نصیب چمکے ہیں فرشیوں کے کہ عرش کے چاند آ رہے ہیں
جھلک سے جن کی فلک ہے روشن وہ شمس تشریف لا رہے ہیں
زمانہ پلٹا ہے رت بھی بدلی فلک پہ چھائی ہوئی ہے بدلی
تمام جنگل بھرے ہیں جل تھل ہرے چمن لہلہا رہے ہیں
ہیں وجد میں آج ڈالیاں کیوں یہ رقص پتوں کو کیوں ہے شاید
بہار آئی ہے مژدہ لائی کے حق کے محبوب آ رہے ہیں
خوشی میں سب کی کھلی ہیں باچھیں رچی ہے شادی مچی ہیں دھومیں
چرند اِدھر کھلکھلا رہے ہیں پرند اُدھر چہچہا رہے ہیں
نثار تیری چہل پہل پر ہزار عیدیں ربیع الاوّل
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
شب ولادت میں سب مسلماں نہ کیوں کریں جان و مال قرباں
ابولہب جیسے سخت کافر خوشی میں جب فیض پا رہے ہیں
زمانہ بھر میں یہ قاعدہ ہے کہ جس کا کھانا اسی کا گانا
تو نعمتیں جن کی کھا رہے ہیں انھیں کے ہم گیت گا رہے ہیں
حبیب حق ہیں خدائی نعمت بنعمت ربک فحدث
خدا کے فرمان پر عمل ہے جو بزم مولا سجاد رہے ہیں
میں تیرے صدقہ زمین طیبہ فدانہ کیوں تجھ پہ ہو زمانہ
کے جن کی خاطر بنا زمانہ وہ تجھ میں آرام پا رہے ہیں
ہیں جیتے جی کے یہ سارے جھگڑے مچی جو آنکھیں تمام چھوٹے
کریم جلوہ وہاں دکھانا جہاں کہ سب منھ چھپا رہے ہیں
نکیرو پہچانتا ہوں ان کو یہ میرے آقا یہ میرے داتا
مگر تم ان سے تو اتنا پوچھو یہ مجھ کو اپنا بتا رہے ہیں٭۱۲
ایک نعت پاک کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
کوئی مثل ان کا ہو کس طرح وہ ہیں سب کے مبدائو منتہیٰ
نہیں دوسرے کی جگہ یہاں کے یہ و صف دو کو ملا نہیں
کوئی تجھ سے بچ کے کہاں رہے تیرا ملک چھوڑ کہاں بسے
تو حبیب رب تیری ملک سب جہاں تو نہ ہو کوئی جا نہیں٭۱۳
ایک نعت پاک میں چار کے عدر سے کیا ہی مضمون آفرینی کی ہے پڑھ کر دل و جد کرنے لگتا ہے فرماتے ہیں:
چار رسل فرشتے چار، چار کتب ہیں دین چار
سلسلے دونوں چار چار لطف عجب ہے چار میں
آتش و آب و خاک بادان ہی سے سب کا ہے ثبات
چار کا سارا ماجرا ختم ہے چار یار میں٭۱۴
الغرض حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نعتیں اس قابل ہیں کہ ان کی طرف خصوصی توجہ کی جائے اور اگر گہرائی و گیرائی سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ان کے کلام میں کوئی ایسا شعر نظر نہیں آئے گا کہ اس پہ انگلی رکھی جاسکے چوںکہ آپ قرآن پاک کے مفسر اور حدیث پاک کے شارح و مترجم کی حیثیت سے عالم اسلام میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپ نے جو بھی شعر کہا ہے وہ قرآن و حدیث اور سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کہا ہے۔ حضرت مفتی صاحب کے دیوان میں ایک نعت ہندی زبان میں ہے اگرچہ ہندی رسم الخط کو اردو رسم الخط میں پڑھنے میں قدرے تکلف ہوتا ہے۔ مگر قدرے توجہ کے بعد پڑھنے سے اس کی لذت اور چاشنی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے ملاحظہ ہو پوری نعت پاک:
صورت مت بھولنا پیا ہماری
تمری ہی اک آس ہے ہم تمرے واری
پی نگری کی پہلی منزل سکھین چھوڑ ساتھ
اس گھونگھٹ کی لاج ہے پیا تمھارے ہاتھ
رسّی ُچھوٹی ہاتھ سے مورے اور نیا منجدھار
تم جو بھیاں چھوڑ و پیارے کون لگائوے پار
جگ نے چھوڑا رات بتانے گھر سے دیو نکاس
تم راجہ کے چرن پڑوں میں اب تمری ہے آس
گھر گھر جھانکا در در مانگا سب کے آنکھ بچائے
اک تم سنگ نہ چھوڑیو کہ کوئی بحارئو نائے
میں ہتیاری چلی پیا گھر جانوں کام نہ کاج
اے سیّاں بیّاں پکڑے کی تم ہی رکھیو لاج
کھیل کود میں عمر گنوائی سو کاٹے دن رین
جب پی گھر سے آئی پلکیاں ٹپ ٹپ ٹپکت نین
لیس یہ گٹھڑی ڈگر کٹیلی گھائل مورے پائوں
پیارے تم ہی سنبھالیو جب ڈگمگ میں ہو جائوں
تم کچھ کرپا کرو تو سالکؔ برا بھلا بن جائے
کھوٹا کھرا نہ دیکھے پارس کندن سبھی بنائے
تیل جو نبڑے بتی پجرے دیا میرا بڑھ جائے
سانچے سورج جوت تمھاری سالک یہ پڑ جائے٭۱۵
اس کے بعد دیوان میں ایک قصیدہ ’’تضمین برنظم منسوب بہ زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے نیز چاروں خلفائے عظام اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت آمنہ، خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا اور سیّد الشہدا حضرت امام عالی مقام امام حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی شان میں قصائد ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں ایک موجییہ نظم ہے۔ اس کے بعد سرکار غو ث اعظم سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ کی شان میں ’’التجا‘‘ کے عنوان سے ایک نظم اور ایک قصیدہ ہے۔ اس کے بعد اپنے پیر و مرشد اور استاد صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی کی شان میں تین موجییہ قصیدے تحریر کیے ہیں در حقیقت ہر شاگرد اپنے استاد کا حق ہوتا ہے اور جب شاگرد لائق و فائق ہو پھر کیا کہنا حضرت مفتی صاحب نے بڑے بلیغ انداز میں اپنے پیر و مرشد اور استاد مکرم کی مدح سرائی کی ہے اور انھوںنے شاگرد رشید ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔
دیوانِ سالک میں مختلف عنوانات کے تحت بھی کچھ کلام ہیں جیسے ’’دعا‘‘ شہزادی اسلام مالکہ دارالسلام حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح، جہیز، شہزادی کونین کی زندگی پاک، مناجات، عرض گدا بہ وقت و داع سیر حج پر مدینہ منورہ سے رخصت کے وقت عرض کی گئی) مختلف اشعار، و احسرتا، وغیرہ دیوان کے آخر میں ایک نظم بہ عنوان، ’’قصیدہ در شانِ غوث پاک‘‘ کے ہے۔
دیوانِ سالک کا خاتمہ ایک نظم پر ہے جسے حضرت مفتی صاحب نے اپنے ایک عزیز لالہ فضل مرحوم کے حوالے سے تحریر کی ہے لالہ فضل مرحوم نے حضرت مفتی صاحب کی علمی جلالت کا احترام کرتے ہوئے انھوںنے اپنی بڑی بیٹی کی شادی حضرت مفتی صاحب کے ارشاد کے مطابق شریعت کی روشنی میں کیا اور جملہ خرافات و منہیات سے اپنے آپ کو بعض رکھا حضرت مفتی صاحب اُن کے اس کردار سے بہت متاثر ہوئے اور آپ نے ان کی شان میں باقاعدہ ایک نظم ہی کہہ ڈالی جو مطالعہ اور نصیحت حاصل کرنے کے قابل ہے۔
حضرت مفتی صاحب کے نعتیہ دیوان ’’دیوان سالک‘‘ سے میں نے خاطر خواہ کلام تحریر کیے ہیں ان کے مطالعہ کی روشنی میں ارباب علم کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ ان کا نعتیہ کلام کس معیار کا ہے اسی لیے میں نے دو چند اشعار پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خاطر خواہ کلام تحریر کیے ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ میں نے پوری پوری نعتیں تحریر کی ہیں اور ایسا میں نے پروفیسر جلیل قدوائی کی رائے سے متفق ہو کر کیا ہے وہ فرماتے ہیں:
چوںکہ میں ایک اک ، دو دو متفرق اشعار پیش کرکے کسی شاعر کے انداز سخن اور اس کے کلام کے حسن و قبح پر کوئی دلیل قائم کرنا محکم طریقہ کار نہیں مانتا اگرچہ شاعر کے متفرق اچھے اشعار کو ان کی ذاتی خوبیوں کے لحاظ سے داد و تحسین کا بالکل غیر مستحق بھی نہیں سمجھتا۔٭۱۶
حوالا جات
٭۱۔ مجموعہ نعت صلی علیٰ محمد۔ پیرزادہ سیّد محمد عثمان نوری، نور کتب خانہ، لاہور، ص۷۴
٭۲۔ حدائق بخشش۔ مولانا احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص۶۰
٭۳۔ ذوق نعت۔ علامہ حسن رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر، گجرات، ص۲۵
٭۴۔ مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری۔ ڈاکٹر سراج احمد قادری رضوی کتاب گھر دہلی، ص ۳۴
٭۵۔ تذکرہ اکابر اہل سنت (پاکستان) علامہ عبدالحکیم شرف قادری نقشبندی مکتبہ قادریہ، لاہول، ص ۵۴
٭۶۔ مشکوٰۃ المصابیح اردو ترجمہ جلد اوّل علامہ مفتی احمد یار خاں رحمۃ اللہ علیہ ادارہ استقامت کان پور ص۴۸۸
٭۷۔ ایضاً ص ۴۹۰
٭۸۔دیوان سالک ۔ حضرت علامہ مفتی احمد یار خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ مکتبہ رضویہ ۵۱۰ مٹیا محل، دہلی ص۳
٭۹۔ ایضاً ص ۵ ٭۱۰۔ ایضاً ص ۶ ٭۱۱۔ایضاً ص۱۰ ٭۱۲۔ ایضاً ص ۱۴
٭۱۳۔ ایضاً ص۱۵ ٭۱۴۔ ایضاً ص۱۶ ٭۱۵۔ایضا ص۳۴
٭۱۶۔ ماہ نامہ ’’القول السدید‘‘ نعت نمبر محمد طفیل شمارہ مارچ تا مئی ۱۹۹۰ء کرم پارک مصری شاہ لاہور ص ۳۷
{٭}

Exit mobile version