عدل و انصاف کے دو اعلی نمونے :

عدل و انصاف کے دو اعلی نمونے :

یہاں عدل و انصاف کے دو اعلیٰ نمونے پیش خدمت ہیں جس سے اسلام کی تعلیمات کا نقشہ سامنے آتا ہے :
(1)…ملک غَسَّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا، کچھ دنوں بعد امیرُ المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حج کے ارادے سے نکلے تو جبلہ بن ایہم بھی اس قافلے میں شریک ہو گیا ۔ مکۂ مکرمہ پہنچنے کے بعد ایک دن دورانِ طواف کسی دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کی چادر پر پڑ گیا تو چادر کندھے سے اتر گئی ۔ جبلہ بن ایہم نے اس سے پوچھا : تو نے میری چادر پر قدم کیوں رکھا؟ اس نے کہا : میں نے جان بوجھ کر قدم نہیں رکھا غلطی سے پڑ گیا تھا ۔ یہ سن کر جبلہ نے ایک زور دار تھپڑ ان کے چہرے پر رسید کر دیا، تھپڑ کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے اور ناک بھی زخمی ہو گئی ۔ یہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جبلہ بن ایہم کے سلوک کی شکایت کی ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جبلہ بن ایہم کو طلب فرمایا اور پوچھا : کیا تو نے اس دیہاتی کو تھپڑ مارا ہے ؟ جبلہ نے کہا : ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے ، اگر اس حرم کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اے جبلہ ! تو نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے ، اب یا تو تو اس دیہاتی سے معافی مانگ یا میں تم سے اس کا قصاص لوں گا ۔ جبلہ نے حیران ہو کر کہا : کیا آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس غریب دیہاتی کی وجہ سے مجھ سے قصاص لیں گے حالانکہ میں تو بادشاہ ہوں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو ۔ جبلہ نے عرض کی : مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے پھر مجھ سے قصاص لے لیجئے گا ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس دیہاتی سے دریافت فرمایا : کیا تم اسے مہلت دیتے ہو؟ دیہاتی نے عرض کی : جی ہاں ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے مہلت دے دی، مہلت ملنے کے بعد راتوں رات جبلہ بن ایہم غسانی ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ۔
(فتوح الشام، ذکر فتح حمص، ص۱۰۰، الجزء الاول)
(2)…ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہوا، دونوں نے یہ طے کیا کہ ہمارے معاملے کا فیصلہ حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کریں ۔ چنانچہ یہ فیصلے کے لئے حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر پہنچے ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا : ہم تمہارے پا س اس لئے آئے ہیں تاکہ تم ہمارے معاملے کا فیصلہ کر دو ۔ حضرت زید رَضِیَ اللہُ

تَعَالٰی عَنْہُ نے بستر کے درمیان سے جگہ خالی کرتے ہوئے عرض کی : اے امیر المومنین! یہاں تشریف رکھئے ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : یہ تمہارا پہلا ظلم ہے جو تم نے فیصلے کے لئے مقرر ہونے کے بعد کیا، میں تو اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا ۔ یہ فرما کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے بیٹھ گئے ۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی، حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعویٰ کیا اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا انکار کیا(حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ پیش نہ کر سکے تو اب شرعی اصول کے مطابق حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر قسم کھانا لازم آتا تھا ) حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے (حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شخصیت اور رتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے ) حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا : آپ امیر المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے قسم لینے سے در گزر کیجئے ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فوراً حلف اٹھالیا اور قسم کھاتے ہوئے فرمایا : زید اس وقت تک منصبِ قضاء (یعنی جج بننے ) کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عمر(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) اور ایک عام شخص اس کے نزدیک(مقدمے کے معاملے میں) برابر نہیں ہو جاتے ۔ (ابن عساکر، ذکر من اسمه زید، زید بن ثابت بن الضحاک… الخ، ۱۹ / ۳۱۹)

Exit mobile version