شجاعت وقوت، عزم واستقلال

شجاعت وقوت، عزم واستقلال

آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان اَوصاف میں بھی سب پر فائق تھے۔ ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور وغل بر پاہو اگو یا کوئی چوریا دشمن آیا ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا گھوڑا لیاجو سست رفتار اور سر کش تھاآپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار آڑے لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے ، جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کو تسلی دی کہ ڈرومت ڈرومت! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریاکی مانند تیز رفتار پایا۔ (2 )
غز وات میں جہاں بڑے بڑے دِلا وروبہاد ربھاگ جایا کر تے تھے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ثابت قدم رہا کرتے تھے۔ چنانچہ جنگ اُحد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہو ئی تو یہ کوہِ اِستقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے جب کمان پارہ پارہ ہوگئی تو سنگ انداز ی شروع کی۔ جنگ حنین میں صرف چند جانباز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے اس نازک حالت میں آپ نے اسی پر اکتفاء نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر مدافعت فرمائیں بلکہ اپنے خچر کو باربار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھا نا چاہتے تھے مگر وہ جانبا ز مانع آرہے تھے۔
جب گھمسان کا معرکہ ہوا کر تا تھا تو صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت بَراء بن عازِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا قول ہے: ’’ اللّٰہ کی قسم! جب لڑائی شدت سے

ہوا کر تی تھی تو ہم نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پنا ہ ڈھونڈا کر تے تھے اور ہم میں سے بہاد روہ ہو تا تھاجو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہو تا تھا۔ ‘‘ ( 1)
اعلان دعوت پر قریش نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سخت مخالفت کی جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا ار ادہ کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں فرمایا: ’’ چچا جان! اللّٰہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کا م کو چھوڑ دوں تب بھی اس کا م کو نہ چھوڑ وں گایہاں تک کہ خدا اسے غالب کر دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں ۔ ‘‘
ہجرت سے پہلے قریش نے مسلمانوں کو اس قدر ستا یا کہ ان کا پیمانہ صبر لبر یز ہو گیا تنگ آ کر انہوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے عرض کیا کہ آپ ان پر بددعا فرمائیں ۔یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا: ’’ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان پر لو ہے کی کنگھیاں چلا ئی جاتیں جس سے گو شت پوست سب علیحدہ ہوجاتا اور ان کے سروں پر آرے رکھے جاتے اور چیر کر دوٹکڑے کردئیے جاتے مگر یہ اذیتیں ان کو دین سے برگشتہ نہ کرسکتی تھیں ۔اللّٰہ تعالٰی دین اسلام کو کمال تک پہنچا ئے گایہاں تک کہ ایک سوار صَنعاء سے حَضَرمَوت تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈرنہ ہو گا۔ ‘‘ ( صحیح بخاری) ( 2)
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قوت بدنی بھی سب سے زیادہ تھی۔غز وۂ احزاب میں جب صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن خند ق کھود رہے تھے تو ایک جگہ ایسی سخت زمین ظاہر ہوئی کہ سب عاجز آگئے۔ آپ سے عرض کیا گیا تو آپ بذات شریف خند ق میں اُتر ے اور ایک کدال ایسا مارا کہ وہ سخت زمین ریگ رواں (3 ) کا ایک ڈھیر بن گئی۔
رُکانَہ بن عبد یز ید بن ہاشم قرشی مطلبی قریش میں سب سے طاقتور تھاوہ ایک روز مکہ کے راستے میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے ملاآپ نے اس سے فرمایا: ’’ رکانہ! کیا تو خد اسے نہیں ڈرتا اور میری دعوت اسلام کو قبول نہیں کرتا؟ ‘‘ اس نے کہا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ سچ ہے تو میں آپ پر ایمان لے آؤں ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ اگر میں تجھے کشتی میں پچھاڑ دوں تو کیا تو مان جائے گا کہ میں جو کچھ کہتا ہوں سچ ہے؟ ‘‘ وہ بولا کہ ہاں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے پکڑتے ہی چاروں شانے چت گر ادیا۔ (1 ) کہنے لگا: ’’ محمد ! آپ مجھ سے دوبار ہ کشتی لڑیں ۔ ‘‘ آپ نے دوسری دفعہ بھی اسے پچھاڑ دیا۔ اس پر اس نے کہا: ’’ محمد ! خدا کی قسم! آپ کا مجھے پچھاڑ نا عجیب ہے۔ ‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ اگر تو خدا سے ڈرے اور مجھ پر ایمان لائے تو میں اس سے بھی عجیب امر تجھ کودکھاتا ہوں ۔ اس نے پو چھا کہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ درخت جو تو دیکھتا ہے میں اسے بلاتا ہوں اور وہ میرے پاس چلا آئے گا۔ اس نے کہا کہ آپ اسے بلائیے۔ چنانچہ وہ درخت آپ کے بلا نے پر پاس آکھڑا ہو ا۔ ر کانہ نے کہا کہ اسے حکم دیجئے کہ اپنی جگہ پر چلا جائے۔ آپ کے حکم سے وہ اپنی جگہ پر چلا گیا رُکانہ نے اپنی قوم میں جا کر کہا کہ میں نے محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سے بڑھ کر کسی کو جادو گر نہیں دیکھا پھر بیان کیا جو کچھ دیکھا تھا۔ (2 ) رُکانہ مذکورفتح مکہ میں ایمان لائے۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔
آ پ نے ابو الا سود جُمَحِی کو بھی پچھاڑا تھاجو ایسا طاقتور تھا کہ گا ئے کی کھال پر کھڑ اہو جاتا، دس جوان اس کھال کو اس کے پاؤں کے نیچے سے نکال لینے کی کو شش کرتے وہ چمڑا پھٹ جاتامگر اس کے پاؤں کے نیچے سے نہ نکل سکتا تھا۔اس نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہا: ’’ اگر آپ مجھے کشتی میں پچھا ڑ دیں تو میں آپ پر ایمان لے آؤں گا۔ ‘‘ آپ نے اسے پچھاڑ دیامگر وہ بدبخت ایمان نہ لایا۔

Exit mobile version