سلف صالحین کی عادت مبارکہ میں اخلاص تھا

اخلاص

سلف صالحین کی عادت مبارکہ میں اخلاص تھا ۔ وہ ہرایک عمل میں اخلاص کو مد نظر رکھتے تھے اور ریا کا شائبہ بھی ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتاتھا ۔ وہ جانتے تھے کہ کوئی عمل بجز اخلاص مقبول نہیں ۔ وہ لوگوں میں زاہدعابد بننے کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔انہیں اس بات کی کچھ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ لوگ انہیں اچھا سمجھیں گے یا برا ۔ ان کا مقصودمحض رضائے حق سبحانہ و تَعَالٰی ہوتاتھا ۔ ساری دنیا ان کی نظروں میں ہیچ تھی وہ جانتے تھے کہ اخلاص کے ساتھ عمل قلیل بھی کافی ہوتاہے، مگر اخلاص کے سوا رات دن بھی عبادت کرتارہے تو کسی کام کی نہیں ۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جب یمن بھیجا تو فرمایا: اخلص دینک یکفک العمل القلیل. (المستدرک علی الصحیحین، کتاب الرقاق، الحدیث:۷۹۱۴، ج۵، ص ۴۳۵)
کہ اپنے دین میں اخلاص کر تجھے تھوڑا عمل بھی کافی ہوگا۔(حاکم) حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ ناظرین سے مخفی نہیں کہ ایک لڑائی میں ایک کافر پر آپ نے قابو پالیا ۔ اس نے آپ کے منہ مبارک پر تھوک دیاتو آپ نے اسے چھوڑ دیا ۔ وہ حیران رہ گیا کہ یہ بات کیا ہے ؟بجائے اس کے کہ انہیں غصّہ آتا اور مجھے قتل کردیتے انہوں نے چھوڑدیا ہے ۔ حیران ہوکر پوچھتا ہے تو آپ فرماتے ہیں ؎
گفت من تیغ از پئے حق مے زنم بندۂ حقم نہ مامور تنم
شیر حقم نیستم شیر ہوا فعل من بر دین من باشد گواہ
کہ میں نے محض رضائے حق کے لئے تلوار پکڑی ہے میں خدا کے حکم کا بندہ

ہوں اپنے نفس کے بدلہ کے لئے مامور نہیں ہوں ۔میں خدا کا شیر ہوں اپنی خواہش کا شیر نہیں ہوں ۔ چونکہ میرے منہ پر تونے تھوکا ہے اس لئے اب اس لڑائی میں نفس کا دخل ہوگیااخلاص جاتارہا، اس لئے میں نے تجھے چھوڑ دیا ہے کہ میرا کام اخلاص سے خالی نہ ہو ؎
چونکہ درآمدعلتے اندر غزا تیغ را دیدم نہاں کردن سزا
جب اس جنگ میں ایک علّت پیدا ہوگئی جو اخلاص کے منافی تھی تو میں نے تلوار کا روکنا ہی مناسب سمجھا ۔ وہ کافر حضرت کا یہ جواب سن کر مسلمان ہوگیا ۔اس پر مولانا رومی فرماتے ہیں ؎
بس خجستہ معصیت کاں مرد کرد نے زخارے بردمد اوراق ورد
وہ تھوکنا اس کے حق میں کیا مبارک ہوگیا کہ اسے اسلام نصیب ہوگیا ۔ اس پر مولانا تمثیل بیان فرماتے ہیں کہ جس طرح کانٹوں سے گل سرخ کے پتے نکلتے ہیں اسی طرح اس کے گناہ سے اسے اسلام حاصل ہوگیا ۔
حضرت وہب بن منبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے: ’’من طلب الدنیا بعمل الٓاخرۃنکس اللّٰہ قلبہ وکتب اسمہ فی دیوان اہل النار‘‘ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۳)
جو شخص آخرت کے عمل کے ساتھ دنیا طلب کرے ۔ خدا تَعَالٰی اس کے دل کو الٹا کردیتا ہے اور اس کا نام دوزخیوں کے دفتر میں لکھ دیتاہے ۔حضرت وہب بن منبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ قول اس آیت سے ماخوذ ہے جو حق تَعَالٰی نے فرمایا:

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ (پ۲۵، الشورٰی:۲۰)
کہ جو شخص (اپنے اعمال صالح میں )دنیا چاہے ہم دنیا سے اتنا جتناکہ اس کا مقرر ہے دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کے لئے کوئی حصّہ نہیں
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ وہ یہاں تک اخلاص کی کوشش کرتے تھے کہ ہمیشہ جماعت کی صفِ اول میں شامل ہوتے ، ایک دن اتفاقًا آخری صف میں کھڑے ہوئے اور دل میں خیال آیا کہ آج لوگ مجھے آخری صف میں دیکھ کر کیا کہیں گے ۔ اس خیال کے سبب لوگوں سے شرمندہ ہوگئے یعنی یہ خیال آیا کہ پچھلی صف میں لوگ دیکھ کر کہیں گے کہ آج اس کو کیا ہوگیا ہے کہ پہلی صف میں نہیں مل سکا ۔ اس خیال کے آتے ہی یہ سمجھا کہ میں نے جتنی نمازیں پہلی صف میں پڑھی ہیں اس میں لوگوں کے لئے نمائش مقصود تھی ۔ توتیس سال کی نمازیں قضا کیں ۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل پنجم، ج۲، ص۸۷۶)
حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے:’’اخلصی تتخلص‘‘ اے نفس ! اخلاص کر! تاکہ تو خلاصی پائے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’ المخلص من یکـتم حسنا تہ کما یکـتم سیئاتہ ‘‘مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیوں کو بھی ایسے ہی چھپائے جیسے کہ اپنی برائیوں کو چھپاتاہے ۔
حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے فرمایا:
یٰبنی لا تتعلم العلم الا اذا نویت العمل بہ والا فھو وبال علیک یوم القیٰمۃ. (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۳)
اے میرے بیٹے ! علم پر اگر عمل کی نیت ہو توپڑھو ورنہ وہ علم قیامت کے دن تم پروبال ہوگا۔

حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہمیشہ اپنے نفس کو مخاطب کرکے فرمایا کرتے تھے: تتکلمین بکلام الصالحین القانتین العابدین وتفعلین فعل الفاسقین المنافقین المرائین واللّٰہ ما ھذہ صفات المخلصین۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۳)
اے نفس! تو باتیں تو ایسی کرتاہے جیسے بڑا ہی کوئی صالح ، عابد ، زاہدہے لیکن تیرے کام ریاکاروں ، فاسقوں ، منافقوں کے ہیں ۔ خدا کی قسم ! مخلص لوگوں کی یہ صفات نہیں کہ ان میں باتیں ہوں اور عمل نہ ہو ۔ خیال فرمائیے ، امام حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ وہ شخص ہیں جنہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا دودھ پیا ۔ حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے خرقہ خلافت پہنا ۔ سلسلہ چشتیہ قادریہ اور سہروردیہ کے شیخ ہوئے ۔ مگر نفس کو ہمیشہ ایسے ہی جھڑکا کرتے تھے تاکہ اس میں ریا نہ پیدا ہو ۔ ایک ہم بھی ہیں بدنام کنندہ نکونامے چند کہ ہم اپنی ریاکاریوں کو عین اخلاص سمجھتے ہیں ۔
حضرت ذوالنون مصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پوچھا گیا کہ آدمی مخلص کس وقت ہوتاہے ۔ فرمایا:جب عبادت الٰہی میں خوب کوشش کرے اور اس کی خواہش یہ ہو کہ لوگ میری عزت نہ کریں ۔ جو عزت کہ لوگوں کے دلوں میں ہے وہ بھی جاتی رہے ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۳)
حضرت یحییٰ بن معاذ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہواکہ انسان کب مخلص ہوتا ہے ۔ فرمایا: جب شیر خوار بچہ کی طرح اس کی عادت ہو ۔شیرخوار بچہ کی کوئی تعریف کرے تو اسے خوش نہیں لگتی اور مذمت کرے تو اسے بری نہیں معلوم ہوتی جس طرح وہ اپنی مدح اور ذم سے بے پرواہ ہوتاہے اسی طرح انسان جب مدح وذم کی پرواہ نہ کرے تو مخلص کہا جاسکتاہے۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۴)

حضرت ابو السائب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہاں تک اخلاص کا خیال رکھتے تھے کہ اگر قرآن یا حدیث کے سننے سے ان کو رقت طاری ہوجاتی اور آنکھوں میں پانی بھر آتا تو آپ فورًا اس رونے کو تبسم کی طرف پھیر دیتے۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۴)
یعنی ہنس پڑتے اور ڈرتے کہ رونے میں ریا نہ ہوجائے ۔ آج ہم خواہ مخواہ وعظ میں تقریر میں رونی صورت بناتے ہیں کہ لوگ سمجھیں کہ یہ حضرت بڑے نرم دل اورخدا خوف والے ہیں ۔ ؎
بہ بیں تفاوت را از کجا ست تا بکجا
ابو عبداللہ انطاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ریا کار کو حکم ہوگا کہ جس شخص کے دکھانے کے لئے تونے عمل کیا اس کا اجراسی سے مانگ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۴)
حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :من ذم نفسہ فی الملإ فقد مدحھا وذالک من علامات الریاء۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۵)
کہ جو شخص مجالس میں اپنے نفس کی مذمت کرے تو اس نے گویا مدح کی اور یہ ریا کی علامت سے ہے ۔ یہاں سے ان واعظوں اور لیکچراروں کو عبرت حاصل کرنا چاہیے جو اسٹیج پر کھڑے ہوتے اپنی مذمت کرتے ہیں کہ ان حضرات کے سامنے کیا جرأت رکھتا ہوں کہ بولوں ، میں ان کے سامنے ہیچ ہوں ، یہ ہوں ، وہ ہوں ۔ یہ مذمت نہیں بلکہ حقیقت میں اپنی تعریف کرنا ہے ۔ بزرگانِ دین اس کو بھی ریا پر محمول فر ماتے تھے ۔

حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ کسی بھائی کو اس کے نفلی روزوں کے متعلق نہ پوچھو کہ تیرا روزہ ہے یا نہیں ۔ کیونکہ اگر اس نے کہا کہ میں روزہ دار ہوں تو اس کا دل خوش ہوگا اور وہ خیال کرے گا کہ میری عبادت کا اس کو پتالگ گیا ہے ۔ اگروہ بولا کہ میرا روزہ نہیں تو وہ غمناک ہوگا اور اسے شرم آئے گی کہ میرا روزہ نہیں اور اس شخص کو میری نسبت جو حسنِ ظن ہے جاتارہے گا ۔ یہ خوشی اور غمی دونوں ہی علاماتِ ریا سے ہیں اور اس میں اس مسؤل کو فضیحت ہے کہ صرف تمہارے پوچھنے کے سبب وہ ریا میں مبتلا ہوا ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۵)
حضرت عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کعبہ کا طواف کرتاہے اور وہ خراسان کے لوگوں کے لئے ریا کرتا ہے لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ یہ کیسے ہوسکتاہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ طواف کرنے والا اس بات کی محبت رکھتا ہے کہ اہل خراسان مجھے دیکھیں اور یہ خیال کریں کہ یہ شخص مکّہ شریف کا مجاور ہے اور ہر وقت طواف وسعی میں رہتاہے بڑا اچھا ہے۔جب اس نے یہ خیال کیا تو اس طواف میں اخلاص جاتا رہا ۔(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۵)
حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ادرکنا النّاس وھم یراؤون بما یعملون فصاروا الآن یراؤون بما لا یعملون (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۵)
کہ ہم نے ایسے لوگوں کو پایا کہ وہ عملوں میں ریا کرتے تھے یعنی عمل کرتے تھے اور اس میں ریا ہوتاتھا لیکن آج ایسی حالت ہوگئی ہے کہ لوگ ریا کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے یعنی کرتے کچھ نہیں محض ریا ہی ریا ہے ۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُ

اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایاکرتے تھے : جو شخص اس امر کی محبت رکھے کہ لوگ میرا ذکر خیر کریں اس نے نہ اخلاص کیا نہ تقویٰ ۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۵)
حضرت عکرمہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ نیت صالحہ بکثرت کیا کرو کہ نیت صالحہ میں ریا کی گنجائش نہیں ۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ۲۶)
حضرت ابو داود طیالسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے کہ عالم کولا زم ہے کہ جب کوئی کتاب لکھے اس کی نیت میں دین کی نصرت کا ارادہ ہو یہ ارادہ نہ ہوکہ عمدہ تالیف کے سبب لوگ مجھے اچھا سمجھیں ۔ اگر یہ ارادہ کرے گا تو اخلاص جاتا رہے گا۔(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۶)
امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ریا کار کی تین علامتیں ہیں جب اکیلا ہو تو عبادت میں سستی کرے اور نوافل بیٹھ کر پڑھے اور جب لوگوں میں ہو تو سستی نہ کرے بلکہ عمل زیادہ کرے اور جب لوگ اس کی مدح کریں تو عبادت زیادہ کرے، اگرلوگ مذمت کریں تو چھوڑ دے ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۷)
حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ جو عمل میں نے ظاہر کردیا ہے میں اس کو شمار میں نہیں لاتا یعنی اس کو کالعدم سمجھتا ہوں کیونکہ لوگوں کے سامنے اخلاص حاصل ہونا مشکل ہے ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۷)
حضرت ابراہیم تیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایسا لباس پہنتے تھے کہ ان کے احباب کے سوا کوئی ان کو پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ عالم ہیں اور فرمایا کرتے تھے کہ مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیوں کو ایسا چھپائے جیسے برائیوں کو چھپاتا ہے ۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۷)

حضرت امام حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے حضرت طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو دیکھا کہ وہ حرم شریف میں ایک بہت بڑے حلقہ درس میں حدیث کا املاء فرمارہے تھے ۔ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قریب ہوکر ان کے کان میں کہا کہ اگر تیرا نفس تجھے عُجب میں ڈالے یعنی اگر نفس کو یہ بات پسندیدہ معلوم ہوتی ہے توتو اس مجلس سے اُٹھ کھڑا ہو اسی وقت حضرت طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۷)
حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حضرت بشر حافی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حلقہ میں تشریف لے گئے تو آپ کے حلقۂ درس کو دیکھ کرفرمانے لگے:اگر یہ حلقہ کسی صحابی کا ہوتا تو میں اپنے نفس پرعجب سے بے خوف نہ ہوتا ۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۷)
حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جب حدیث کی املاء کے لئے اکیلے بیٹھتے تو نہایت خائف اور مرعوب بیٹھتے ۔ اگر ان کے اوپر سے بادل گزرتا تو خاموش ہوجاتے اور فرماتے کہ میں ڈرتا ہوں کہ اس بادل میں پتھر نہ ہوں جو ہم پر برسائے جائیں ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۷)
ایک شخص حضرت اعمش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حلقہ میں ہنسا تو آپ نے اس کو جھڑکا اور اُٹھا دیا اور فرمایا کہ تو علم طلب کرتا ہوا ہنستا ہے جس علم کے طلب کے لئے اللہ تَعَالٰی نے تجھے مکلف فرمایا ۔ پھر آپ نے دوماہ تک اس کے ساتھ کلام نہ کیا ۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۸)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو کہا گیا کہ آپ کیوں ہمارے ساتھ

بیٹھ کر حدیثیں بیان نہیں کرتے ۔ فرمایا: خدا کی قسم!میں تم کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتا کہ تمہیں حدیثیں بیان کروں اور اپنے نفس کو بھی اہل نہیں سمجھتا کہ تم میرے جیسے شخص سے حدیثیں سنو ۔(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۸)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جب قرآن کی تفسیر بیان کرنے سے فارغ ہوتے تو فرمایا کرتے کہ اس مجلس کو استغفار کے ساتھ ختم کرو۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۲۸)
یعنی مجلس کے ختم ہونے پر بہت استغفار کرتے ۔حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے : العمل لاجل الناس ریاء وترک العمل لاجل الناس شرک و الاخلاص ان یعافیک اللّٰہ منھما۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۳۱)
کہ لوگوں کے واسطے عمل کرنا ریا ہے اور لوگوں کے لئے عمل چھوڑدینا شرک ہے اور اخلاص یہ ہے کہ ان دونوں سے اللہ تَعَالٰی محفوظ رکھے ، نہ لوگوں کے دکھانے کے لئے عمل کرے نہ لوگوں کے ہونے کے سبب چھوڑے ۔ حضرت امام شعرانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ترک عمل برائے مردمان یہ ہے کہ جہاں لوگ تعریف کرنے والے ہوں وہاں تو عمل کرے اور جہاں نہ ہوں چھوڑ دے ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۳۲)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کو فرمایا کرتے تھے:جب تم روزہ رکھو تو سراور داڑھی کو تیل لگاؤ اور اپنی حالت ایسی رکھو کہ کوئی معلوم نہ کرسکے کہ یہ روزہ دار ہے ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۳۲)

حضرت عکرمہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کوئی شخص اس شخص سے زیادہ بے عقل نہیں دیکھا جو اپنے نفس کی برائی کو جانتا ہے پھر وہ چاہتا ہے کہ لوگ مجھے عالم و صالح سمجھیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص کانٹے بوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس میں کھجوروں کا پھل لگے ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۳۲، ملتقطا)
حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سجدہ میں رورہا ہے فرمایا:نعم ھذا لوکان فی بیتک حیث لا یراک الناس ۔ (تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، اخلاصہم للّٰہ تعالیٰ، ص۳۲، ملتقطا)
یعنی یہ اچھا کام ہے اگر گھر میں ہوتا جہاں لوگ نہ دیکھتے ۔
حکایت
حضرت امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ احیاء العلوم میں نقل کرتے ہیں کہ ایک عابد کو جو کہ عرصہ دراز سے عبادتِ الٰہی میں مشغول تھا لوگوں نے کہا کہ یہاں ایک قوم ہے جو ایک درخت کی پرستش کرتی ہے ۔ عابد سن کر غضب میں آیا اور اس درخت کے کاٹنے پر تیار ہوگیا ۔ اس کو ابلیس ایک شیخ کی صورت میں ملااور پوچھا کہ کہاں جاتا ہے؟عابد نے کہا کہ میں اس درخت کے کاٹنے کو جاتا ہوں جس کی لوگ پرستش کرتے ہیں ۔وہ کہنے لگاکہ تو فقیر آدمی ہے تجھے ایسی کیا ضرورت پیش آگئی کہ تو نے اپنی عبادت اور ذکر وفکر کو چھوڑا اور اس کام میں لگ پڑا ۔ عابد بولا کہ یہ بھی میری عبادت ہے ۔ ابلیس نے کہاکہ میں تجھے ہرگز درخت کاٹنے نہیں دوں گا۔اس پر دونوں میں لڑائی شروع ہوگئی ۔

عابد نے شیطان کو نیچے ڈال لیا اور سینہ پربیٹھ گیا ۔ ابلیس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دے میں تیرے ساتھ ایک بات کرنا چاہتا ہوں ، وہ ہٹ گیا تو شیطان نے کہا:اللہ تَعَالٰی نے تم پر اس درخت کا کاٹنا فرض نہیں کیا اور تو خود اس کی پوجا نہیں کرتا پھر تجھے کیا ضرورت ہے کہ اس میں دخل دیتا ہے ۔ کیا تو نبی ہے یا تجھے خدا نے حکم دیا ہے؟ اگرخدا کو اس درخت کا کاٹنا منظور ہے تو کسی اپنے نبی کو حکم بھیج کر کٹوادے گا۔عابد نے کہا :میں ضرور کاٹوں گا پھران دونوں میں جنگ شروع ہوگئی عابد اس پر غالب آگیا اس کو گرا کر اس کے سینہ پر بیٹھ گیا ۔
ابلیس عاجز آگیااوراس نے ایک اور تدبیر سوچی اور کہا کہ میں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو میرے اور تیرے درمیان فیصلہ کرنے والی ہو اور وہ تیرے لئے بہت بہتر اور نافع ہے ۔ عابد نے کہا:وہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دے تو میں تجھے بتاؤں ۔ اس نے چھوڑ دیا تو ابلیس نے بتایا کہ تو ایک فقیر آدمی ہے تیرے پاس کوئی شے نہیں لوگ تیرے نان و نفقہ کا خیال رکھتے ہیں ، کیا تو نہیں چاہتا کہ تیرے پاس مال ہو اور تو اس سے اپنے خویش واقارب کی خبر رکھے اور خود بھی لوگوں سے بے پرواہ ہوکر زندگی بسرکرے؟اس نے کہا:ہاں یہ بات تو دل چاہتاہے ۔ تو ابلیس نے کہا کہ اس درخت کے کاٹنے سے باز آجا، میں ہر روز ہررات کوتیرے سر کے پاس دو دینار رکھ دیا کروں گا سویرے اُٹھ کر لے لیا کر، اپنے نفس پر اپنے اہل و عیال پراوردیگر اقارب وہمسایوں پرخرچ کیاکرتیرے لئے یہ کام بہت مفیداور مسلمانوں کے لئے بہت نافع ہوگا ۔ اگر یہ درخت تو کاٹے گا تو اس کی جگہ اور درخت لگالیں گے تو اس میں کیا فائدہ ہوگا؟عابد نے تھوڑا تفکر کیا اور کہا کہ شیخ (ابلیس) نے سچ کہا، میں کوئی نبی

نہیں ہوں کہ اس کا قطع کرنامجھ پر لازم ہو اور نہ مجھے حق سبحانہ و تَعَالٰی نے اس کے کاٹنے کا امر فرمایا ہے کہ میں نہ کاٹنے سے گنہگار ہوں گا اور جس بات کا اس شیخ نے ذکر کیا ہے وہ بیشک مفید ہے ۔ یہ سوچ کر عابد نے منظور کرلیا اور پورا عہد کرکے واپس آگیا ۔رات کو سویا صبح اٹھا تو دو دینار اپنے سرہانے پاکر بہت خوش ہوا ۔ اسی طرح دوسرے دن بھی دودینار مل گئے ۔ پھر تیسرے دن کچھ نہ ملا تو عابد کوغصّہ آیا اور پھر درخت کاٹنے کے ارادے سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔ پھر ابلیس اسی صورت میں سامنے آگیا ۔ اور کہنے لگا کہ اب کہاں کا ارادہ ہے ؟عابد نے کہا کہ درخت کاٹوں گا ۔ اس نے کہا کہ میں ہرگز نہیں جانے دوں گا ۔ اسی تکرار میں دونوں میں کشتی ہوئی ۔ ابلیس نے عابد کو گرادیا اور سینہ پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اگر اس ارادہ سے باز آجائے تو بہتر ورنہ تجھے ذبح کرڈالوں گا ۔ عابد نے معلوم کیا کہ مجھے اس کے مقابلے کی طاقت نہیں ۔ کہنے لگا کہ اس کی وجہ بتاؤ کہ پہلے تو میں نے تم کوپچھاڑ لیا تھا آج تو غالب آگیا ہے اس کی کیاوجہ ہے؟شیطان بولاکہ کل تو خالص خدا کے لئے درخت کاٹنے نکلا تھا تیری نیت میں اخلاص تھا ۔ لیکن آج تجھے دو دیناروں کے نہ ملنے کا غصّہ ہے ۔آج تیرا ارادہ محض خدا کے لئے نہیں اس لئے میں آج تجھ پر غالب آگیا ۔
اس حکایت سے معلوم ہوا کہ شیطان مخلص بندوں پر غلبہ نہیں پا سکتا ۔ حق سبحانہ و تَعَالٰی نے اس کی تصریح فرمائی ہے
اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۴۰) (پ۱۴، الحجر:۴۰)
ترجمہ کنز الایمان:مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں ۔

تومعلوم ہو ا کہ بندہ شیطان سے اخلاص کے سوا نہیں بچ سکتا ۔ اخلاص ہوتو ابلیس کی کوئی پیش نہیں جاتی۔
(احیاء علوم الدین، کتاب النیۃ والاخلاص والصدق، الباب الثانی فی الاخلاص و فضیلۃ…الخ، ج۵، ص۱۰۴)

Exit mobile version