رہن سہن کے آداب
(لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے والے کو چاہے کہ) جب کسی اجتماع یا محفل میں جائے توسلام کرے اورآگے جاناممکن نہ ہو تو جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے اورلوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے،جب بیٹھے تو اپنے قریب والے کو خاص طور پر سلام کرے، اگر عام لوگوں کی محفل میں جائے تو ان کے ساتھ بے ہودہ باتوں میں نہ پڑے،ان کی جھوٹی خبروں اورافواہوں پردھیان نہ دے اور ان میں جاری بری باتوں کی طرف توجہ نہ دے، بغیر کسی سخت مجبوری کے عام لوگوں سے میل جول کم رکھے، لوگوں میں سے کسی کو حقیر نہ سمجھے ورنہ یہ ہلاک وبرباد ہو جائے گا کیونکہ یہ نہیں جانتا، ہو سکتاہے کہ وہ اِس سے بہترہو، دنیادارہونے کی وجہ سے تعظیمی نگاہوں سے ان کی طرف نہ دیکھے کیونکہ دُنیااور جوکچھ اس میں ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک اس کی کچھ اہمیت نہیں، اپنے دل میں دنیاکی قدر ومنزلت پیدانہ ہونے دے کہ اس کی وجہ سے اہلِ دنیاکی تعظیم وتوقیر کرنے لگے گا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس کامرتبہ کم ہوجائے گا۔ لوگوں سے دُنیا حاصل کرنے کے لئے اپنے دین کوداؤ پرنہ لگائے کیونکہ ایساکرنے سے لوگوں کی نظروں میں اس کی قدر ومنزلت ختم ہوجائے گی۔ لوگوں سے عداوت (یعنی دُشمنی)نہ رکھے کہ ان کے دل میں بھی دُشمنی پیداہوجائے گی حالانکہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتااورنہ ہی اسے برداشت کر سکتا ہے۔ کسی سے عداوت رکھے تو محض اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خاطر رکھے۔ پس ان کے برے افعال سے نفرت کرے ، ان کی طرف رحمت وشفقت بھری نظروں سے دیکھے، اگر وہ اس سے محبت کریں، اس کی تعظیم
وتوقیرکریں، اسے دیکھ کر اُن کے چہرے کھِل اُٹھیں اور وہ اس کی تعریف و توصیف کریں تو پھر بھی ان کے پاس کثرت سے نہ آئے کہ حقیقت میں کم لوگ ہی اسے چاہتے ہیں ۔ اگر وہ اُن کے پاس کثرت سے جائے گا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے ان کے سپردکردے گا پھر وہ ہلاک ہوجائے گا۔ اس بات کی حرص و لالچ نہ کرے کہ وہ اس کی غیرموجودگی میں بھی ا س کے ساتھ ایساہی گمان رکھیں جیسا اس کی موجودگی میں رکھتے ہیں کیونکہ یہ چیز ہمیشہ نہیں پائی جاتی، لوگوں کے پاس موجود چیز کوحاصل کرنے میں حرص ولالچ نہ کرے کہ اس طرح وہ ان کے سامنے ذلیل ہو جائے گا اور اپنا دین ضائع کربیٹھے گا۔ اور اُن پربڑائی نہ چاہے۔جب ان میں سے کسی سے اپنی حاجت کاسوال کرے اور وہ اسے پورا کر دے تو وہ اس کا ایسا بھائی ہے جس سے فائدہ حاصل کیاجاتاہے اوراگر اُس نے اِس کی حاجت پوری نہ کی تو اُس کی مذمت نہ کرے کہ اس طرح اُس کے دل میں دشمنی پیدا ہو جائے گی، لوگوں میں سے کسی کو نصیحت نہ کرے، البتہ ! جب کسی میں قبولیت کے آثاردیکھے تو نصیحت کرے،ورنہ وہ اس سے عداوت رکھے گااوراس کی بات نہیں مانے گا۔
اگر لوگوں میں بھلائی،عزت وشرافت یا خوبی دیکھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کرے اوراسی کی تعریف کرے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دُعا کرے کہ وہ اُسے لوگوں کے سپرد نہ کرے۔ جب لوگوں کے کسی شرپرآگاہ ہو یا ان میں بری بات یاغیبت یا کوئی ناپسندیدہ چیزدیکھے توان کا معاملہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر چھوڑ دے اور ان کے شر سے اس کی پناہ مانگے اور اس سے ان کے خلاف مدد طلب کرے اور ان پرعتاب وملامت نہ کرے کہ وہ اُن پرعتاب کی کوئی راہ نہ پائے گامگریہ کہ وہ اس کے دشمن ہو جائیں گے اور اس کا غصہ بھی ٹھنڈا نہ ہوگا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں پرسچی توبہ کرے جن کی وجہ
سے لوگوں کواس پر مسلَّط کیا گیا اور اس سے مغفرت طلب کرے اور لوگوں کی حق بات سننے والا بن جائے اور غلط باتیں سننے سے بہرہ ہو جا ئے۔