راہِ خدا میں پاکیزہ اور حلال مال خرچ کرنے کا حکم راہِ خدا میں ناقص اور گھٹیا مال دینے کی ممانعت

راہِ خدا میں پاکیزہ اور حلال مال خرچ کرنے کا حکم راہِ خدا میں ناقص اور گھٹیا مال دینے کی ممانعت

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۪-وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۲۶۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! اپنی پاک کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اللہ کی راہ میں) کچھ خرچ کرو اور خرچ کرتے ہوئے خاص ناقص مال (دینے ) کا ارادہ نہ کرو حالانکہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم اسے چشم پوشی کئے بغیر قبول نہیں کروگے اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ، حمد کے لائق ہے ۔ (البقرۃ : ۲۶۷)
( اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ : اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ خرچ کرو ۔)بعض لوگ صدقہ میں خراب مال دیا کرتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا کمایا ہوا پاکیزہ اور صاف ستھرا مال دیا کرو نیز زمین کی پیداوار سے بھی راہِ خدا میں خرچ کیا کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ناقص، گھٹیا اور ردی مال نہ دیا کرو، جب تم اللہ تعالیٰ سے اچھی جزا چاہتے ہو تو اس کی راہ میں مال بھی اعلیٰ درجے کادیا کرو ۔ غور کرو کہ جس طرح کا گھٹیا مال تم راہِ خدا میں دیتے ہو اگر وہی مال تمہیں دیا جائے تو کیا تم قبول کرو گے ! پہلے تو قبول ہی نہ کرو گے اور اگر قبول کربھی لو تو کبھی خوشدِلی سے نہ لو گے بلکہ دل میں برا مناتے ہوئے لو گے تو جب اپنے لئے اچھا لینے کا سوچتے ہو تو راہِ خدا میں خرچ کئے جانے والے کے بارے میں بھی اچھا ہی سوچو ۔ بہت سے لوگ خود تو اچھا استعمال کرتے ہیں لیکن جب راہِ خدا میں دینا ہوتا ہے تو ناقابلِ استعمال اور گھٹیا قسم کا دیتے ہیں ۔ ان کیلئے اِس آیت میں عبرت ہے ۔ اگر کوئی چیز فی نَفْسِہٖ تو اچھی ہے لیکن آدمی کو خود پسند نہیں تو اس کے دینے میں کوئی حرج نہیں البتہ حرج وہاں ہے جہاں چیز اچھی نہ ہونے کی وجہ سے ناپسند ہو ۔

آیت’’ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل :

اِس آیت سے کئی مسائل معلوم ہوئے :
(1)… اس سے کمانے کی اجازت ثابت ہوتی ہے ۔
(2)… آیت میں نفلی اور فرض صدقات دونوں داخل ہوسکتے ہیں ۔

(3)… اپنی کمائی سے خیرات کرنا بہتر ہے کیونکہ فرمایا اپنی کمائیوں سے ۔
(4)… مالِ حلال سے خیرات کیا جائے ۔
(5)… سارا مال خیرات نہ کرے بلکہ کچھ اپنے خرچ کے لئے بھی رکھے جیسا کہ’’مِمَّا‘‘’’میں سے ‘‘ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے ۔
(6)… زمین کی پیداوار سے بھی راہِ خدا میں دیا جائے خواہ وہ غلے ہوں یا پھل نیز پیداوار کم ہو یا زیادہ بہر صورت دیا جائے ۔

Exit mobile version