دوغیبی شیر

دوغیبی شیر

روایت ہے کہ بادشاہ روم کا بھیجا ہوا ایک عجمی کا فرمدینہ منورہ آیا اورلوگوں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پتہ پوچھا، لوگوں نے بتادیا کہ وہ دوپہر کو کھجور کے باغوں میں شہر سے کچھ دور قیلولہ فرماتے ہوئے تم کو ملیں گے ۔ یہ عجمی کافر ڈھونڈتے ڈھونڈتے

آپ کے پاس پہنچ گیااور یہ دیکھا کہ آپ اپنا چمڑے کا درّہ اپنے سر کے نیچے رکھ کر زمین پر گہری نیند سو رہے ہیں ۔ عجمی کافر اس ارادے سے تلوار کو نیام سے نکال کر آگے بڑھا کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کر کے بھاگ جائے مگر وہ جیسے ہی آگے بڑھابالکل ہی اچانک اس نے یہ دیکھا کہ دو شیر منہ پھاڑے ہوئے اس پر حملہ کرنے والے ہیں۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر وہ خوف ودہشت سے بلبلا کر چیخ پڑا اور اس کی چیخ کی آواز سے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدارہوگئے اوریہ دیکھا کہ عجمی کافر ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے تھرتھرکانپ رہا ہے ۔ آپ نے اس کی چیخ اوردہشت کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے سچ مچ ساراواقعہ بیان کردیا اورپھر بلند آواز سے کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا اور امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے ساتھ نہایت ہی مشفقانہ برتاؤ فرماکر اس کے قصور کو معاف کردیا۔(1) (ازالۃ الخفاء،مقصد۲،ص۱۷۲وتفسیرکبیرج۵،ص۴۷۸)

تبصرہ

یہ روایت بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی حفاظت کے لیےغیب سے ایسا سامان فراہم فرمادیتاہے کہ جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا اوریہی غیبی سامان اولیاء اللہ کی کرامت کہلاتے ہیں۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی مضمون کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ؎

محال است چوں دوست دارد ترا
کہ در دست دشمن گزارد ترا

یعنی اللہ تعالیٰ جب تم کو اپنا محبوب بندہ بنالے تو پھر یہ محال ہے کہ وہ تم کو تمہارے دشمن کے ہاتھ میں کسمپرسی کے عالم میں چھوڑدے بلکہ اس کی کبریائی ضرور دشمنوں سے حفاظت کے لیے اپنے محبوب بندوں کی غیبی طور پر امدادونصرت کا سامان پیدا فرما

دیتی ہے اوریہی نصرت ایمانی فضل ربانی بن کر اس طرح محبوبان الٰہی کی دشمنوں سے حفاظت کرتی ہے جس کود یکھ کر بے اختیار یہ کہنا پڑتا ہے کہ ؎

"دشمن اگر قوی است نگہبان قوی تَر است”

Exit mobile version