دریا پر چلنے والا قطب :
حضرت سیِّدُنامحمد بن ابی حواری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں:”موصل شہرمیں ایک غمزدہ عاشق الٰہی عَزَّوَجَلَّ رہا کرتا تھاجس کا نام سعدون تھا۔ میں اس کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: ”تمہارے غم اور محبت کا سبب کیا ہے؟” اس نے جواب دیا: ”ایک دن میں سیر وسیاحت کرتے ہوئے نکلا تاکہ کسی ایسے بندے سے ملوں جو میرے دل کو پاک کر دے اور مجھے رب عَزَّوَجَلَّ کے راستے کی معرفت کرا دے۔میں نے ایک آدمی کو دیکھاجو شیر پر سوار تھا۔میں اس سے خوفزدہ ہوا تو اس نے مجھے پکارا: ”کیاتم اپنے جیسی مخلوق سے ڈرتے ہو؟” پھر اس نے شیر کو بھگادیا اور پیدل چلنے لگا۔ میں اس کے پیچھے ہو لیا اور اسے سلام کیا، اس نے سلام کا جواب دیا۔میں نے عرض کی :”اس ذات کی قسم جس نے آپ کو یہ مرتبہ اور قرب عطا فرمایا ہے! مجھے بھی اس راستے کی رہنمائی فرمائیے۔” اس نے فرمایا:” دنیا کو قید خانہ اور آخرت کو ٹھکانہ اور قلعہ جانو، اپنی آنکھوں کو گریہ وزاری اور بیداری کا عادی کرو،سحری کے وقت بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں حاضری کو لازم پکڑو اور اس ذات سے خوفزدہ رہو۔” میں نے عرض کی:”یاسیدی !مزید کچھ فرمائیے۔”تو ارشادفرمایا : ”اے سعدون !تو عقل مند ہے یا مجنون؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! جب تجھے راہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کی معرفت مل جائے تو تیرا وجود تابع ہو جائے گااور سیاہی دور ہو جائے گی۔”میں نے عرض کی: ”یا سیدی !اس ذات کا واسطہ جس نے آپ کو بھیدوں پر آگاہ فرمایااور آپ کا دل اپنے انوار سے معمور فرمایا! مجھے اجازت دیجئے کہ دن کا بقیہ حصہ آپ کی صحبت میں گزاروں۔”تو فرمانے لگے: ”اس شرط پر کہ تم جو دیکھو گے اسے میرے زندہ رہنے تک چھپائے رکھو گے۔” میں نے حامی بھرلی۔ پھر فرمایا:” میرے ساتھ چلو ، ہم کسی کے جنازے پر حاضر ہو ں گے۔”
پھر ہم چلتے چلتے ایک دریا پر جاپہنچے۔ انہوں نے دریا پر اپنی چادر بچھائی او ر میرے ہاتھ کو تھام لیا۔ہم چادر پر بیٹھ گئے یہاں تک کہ ہم دریا کے درمیان ایک جزیرے پر پہنچ گئے ۔ وہاں ہم نے ایک آدمی کو دیکھا جو چِت لیٹا ہوا تھا، وہ سکرات موت میں تھا۔ جب اس کا انتقال ہو گیا تو ہم نے اس کے غسل وکفن کا اہتمام کیا، اس پر نمازِ جنازہ پڑھی پھر اسے قبر میں دفن کر دیا۔میں نے عرض کی:” یاسیدی !یہ کو ن ہيں اوران کا نام کیا ہے؟” ارشادفرمایا:”یہ حضرت سیِّدُنا عبد الوہاب علیہ رحمۃ اللہ التَّوَّاب ہيں جو سات قطبوں میں سے ایک تھے، اب مجھے ان کی جگہ دی گئی ہے۔”میں نے ان سے ان کے اپنے متعلق بھی پوچھنا چاہا مگر انہوں نے بتانے سے انکار کر دیا اورمجھے چھوڑ کر تشریف لے گئے۔میں جزیرے میں اکیلا رہ جانے کی وجہ سے شدت سے رو پڑا۔ پھرمیں نے اس قبر پر تلاوتِ قرآنِ کریم کی آواز سنی لیکن پڑھنے والا نظر نہ آرہا تھا۔ میں اس سے مانوس ہو گیا اور قبر کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ میں سونے اور جاگنے کی کیفیت میں تھاکہ مجھے خواب میں ایک حسین وجمیل بزرگ کا دیدار ہوا۔میں نے عرض کی : ”یاسیدی !اس
ذات کی قسم جس نے آپ کو اپنی رضا اور قبولیت کی پوشاک عطا فرمائی ہے! اس بزرگ کا نام کیا ہے جو مجھے اس جزیرے میں تنہا چھوڑ گئے ہیں؟” انہوں نے ارشادفرمایا:”یہ صاحب ِ علمِ ربّانی حضرت سیِّدُناعبداللہ یونانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے، وہ میری جگہ قطب بنائے گئے ہیں، کل وہ تمہارے پاس آئیں گے اور تجھے واپس پہنچا دیں گے، لیکن جب تمہاری ان سے ملاقات ہوتومیری طرف سے کہنا کہ” میرے اور اپنے درمیان کئے ہوئے وعدے کو نہ بھولنا۔”
حضرت سیِّدُنا سعدون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”میں بیدار ہواتو فجر ہو چکی تھی۔ میں نے وضو کر کے نماز پڑھی اورقرآنِ حکیم کی تلاوت کرنے کے بعد کچھ دیرکے لئے لیٹ گیاتو اچانک مجھے اونگھ آگئی اور مجھے تب پتہ چلا جب وہ بزرگ مجھے بیدار کر رہے تھے۔ میں نے ان کی دست بوسی کرتے ہوئے معذرت کی۔ انہوں نے میراہاتھ پکڑا اور دریا کی طرف چل پڑے یہاں تک کہ ہم خشکی پر پہنچ گئے۔ جب میں نے لوٹنے کاارادہ کیا تو انہوں نے فرمایا:”شیخ کی وصیت کہاں ہے؟”میں نے عرض کی: ”یا سیدی! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کے اور ان کے درمیان کیا وعدہ ہے،انہوں نے فرمایاہے کہ اسے نہ بھولنا۔”تو آپ نے فرمایا:”میں وعدہ بھولنے والا نہیں ۔”میں نے عرض کی ،” یا سیدی!مجھے ارشاد فرمائیے! آپ کے اور ان کے درمیان کون سا وعدہ ہے۔”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”انہوں نے مجھ سے عہد لیا ہے کہ میں ہر روز ان کی زیارت کے لئے آیا کروں گا۔” میں نے عرض کی :”یاسیدی !اس ذات کی قسم جس نے آپ کو اپنی معرفت عطا فرمائی اور اپنی ولا یت سے مشرف فرمایا! مجھے ایسا توشۂ سفر عطا فرمادیں جو میرے لئے دنیاو آخرت میں نفع بخش ہو۔” تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”ہدایت کے راستے پر چلتے رہو، گمراہ مردود لوگوں سے کنارہ کش رہو، آج کے رزق پر قناعت کرو اور کل کی فکر نہ کرو،رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ پر راضی رہو اور آزمائش اور قضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ پر صبر کرو۔”پھر مجھے وہیں چھوڑ کروہ رخصت ہوگئے۔پھرحضرت سیِّدُنا سعدون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”یہی واقعہ میری محبت ،دیوانگی اور شوقِ دیدارِالٰہی عَزَّوَجَلَّ کا سبب ہے۔”
تمام خوبیاں اس ذات کے لئے ہیں جس نے دور کو قریب اور قریب کودور کیا۔دشمن کو دور کیا اور دوست کو قریب کیا۔ نافرمان کو ذلیل کیا اور فرمانبردار، توبہ کرنے والے کو عزت سے نوازا۔ وہ مالکِ حقیقی کہ جو بھی اسے پکارے وہ لبیک کہتے ہوئے جواب دیتا ہے اور جو بھی اس سے مانگے وہ اپنے فضل وکرم سے اس کے سوال سے زیادہ عطا فرماتا ہے۔ پس اے گنہگار انسان! اپنے قبر میں ٹھہرنے کویاد کر اور اپنے نفس کی کڑی نگرانی کراورجب تک تیری جوانی کی ٹہنی تروتازہ اور شگفتہ رہے روزِ جزا اور اپنی آخرت کے لئے عمل کرتا رہ۔ کب تک تو اپنی لغزش کی بیماری میں مبتلا رہے گااور اس کے لئے شفا بخش دوا یا حکیم نہ پائے گا۔رات کی تاریکی میں بیدار ہواوراس ذات سے مناجات کر جو ہمیشہ سمیع و قریب ہے۔اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کے حضور گڑگڑا، دُنیا میں اجنبی بن کر رہ، صبح و شام اس کے سایۂ رحمت کی پناہ طلب کر اور اس کے بابِ کرم پر کھڑا ہوجا تُو اس کے دروازے کو کھلااور اس کی بارگاہ
کوکشادہ پائے گا۔ اورسحری میں معذرت خواہانہ انداز سے اس کو پکار اور اس شخص کی طرح دعا کر جو اپنے گناہوں پر غم زدہ اور دِل شکستہ ہے۔
اے میرے اسلامی بھائیو!اس شخص کا حال کتنا اچھا ہے جس نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور فریاد کی !اس شخص کا حال کتنا پاکیزہ ہے جس نے اولیائے کرام رحمہم اللہ السلام کووسیلہ بنایا! محبینِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی گفتگو کتنی پیاری ہے!پرہیزگاروں کی باتیں کتنی عمدہ ہیں!باعمل لوگوں کا سازوسامان کتنا نفع بخش ہے! کوشش کرنے والوں کے چہرے کتنے روشن ہیں!ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کرنے والوں کی سانسیں کتنی خوشبو دارہیں!شوقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ رکھنے والوں کا جھڑکنا بھی کتنا کیف وسرور رکھتا ہے! غمزدوں کی گریہ و زاری کتنی نفع بخش ہے!قیام کرنے والوں کی مناجات کتنی میٹھی ہیں! روکے ہوؤں کی زندگی کتنی کڑوی ہے! خطاکاروں کی جانیں کتنی ذلیل ہیں! محروموں کاحال کتنا برا ہے! غافلوں کا پچھتا وا کتنا سنگین ہے! دھتکارے ہوؤں کی زندگی کتنی بری ہے! ظالموں کے دل کتنے اندھے ہیں! اور نا فرمانوں اور گناہگاروں کے چہرے کتنے برے ہیں۔