خوفِ الٰہی :
حق تعالیٰ فر ما تاہے کہ انما یخشیٰ اللہ من عبادہ العلماء یعنی خداے تعالیٰ سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علماء ہیں ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جہلاء کو خداے تعالیٰ کا کچھ خوف نہیں ۔ اس آیت شریفہ کی تصدیق کے بعد یہ یقین ہو تا ہے کہ جو لوگ تمامی درسی کتا بیں پڑھ کر علماء مشہور ہو تے ہیں اگر ان کوخوف خد نہ ہوتو ان کو’’علماء ‘‘ کہنا بے موقعہ ہوگا ،کیونکہ کتابیں پڑھنا اور بات ہے اور ’’علم ‘‘ کچھ اور ہی چیز ہے ۔
یورپ میں اکثر یہود ونصاریٰ علوم عربیہ میں ماہر ہو تے ہیں جس کی وجہ سے فاضل کہلاتے ہیں مگر دین اسلام کی روسے ان کوعلماء نہیں کہہ سکتے ۔ اسی طرح اہل اسلام بھی اگر تحصیل کرلیں اور ان خوف خدانہ ہوتو اس آیت شریفہ کی روسے ان کوعالم کہنا درست نہ ہوگا ۔ دراصل علم اس کیفیت قلبیہ کانام ہے جو ظن سے متجاوز ہوکر حد یقین میں داخل ہو گئی ہو ۔
اب یہاں یہ دیکھنا چاہئے کہ دین میں کونسی چیزوں کا علم معتبر ہے اور اس علم کا معلوم کیا ہے ؟کیونکہ عالم میں بے انتہاء چیزیں ایسی ہیں جس کاعلم دین اسلام کے لحاظ سے ضروری نہیں ۔ تمام آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اس کے احکام واخبار کا علم ضروری ہے ،یعنی جس طرح خداے تعالیٰ نے خبر دی ہے اس کا یقین کرلے اور کیفیت یقین حاصل ہو تو وہ علم ہوگا ۔
جب آدمی اس بات کو جا ن لے گا کہ خداے تعالیٰ کے صفات میں قہاریت بھی ایک صفت ہے اور اسی کا یہ اثر ہے کہ حق تعالیٰ نے برے کاموں سے منع فرمایا ،اور جولوگ ان کے مرتکب ہوں ان کے لئے دوسرے عالم میں بڑا قید خانہ تیا رکیا جس میں ہرقسم کی اذیتیں ہیں ، تو اس علم کے بعد اس سے گنا ہ اول تو صادر ہی نہ ہوگا ،اور ہوگا تو وہ توبہ کر لے گا غرضکہ اس علم کے بعد اس کو خوف الٰہی ضرور ہوگا ، اور جس کو یہ علم ہی نہ ہوتو اس کو خوف بھی نہ ہوگا ۔ الحاصل جس کسی کو صفت قہاریت اور اس کے آثار کا علم ہوگا ممکن نہیں کہ وہ بے خوف ہو ۔ البتہ مدارج علم متفاوت ہو تے ہیں، اس لئے خوف کے مدارج بھی متفا وات ہوں گے ،جس کو کمال درجہ کا علم و یقین ہوگا اس کو خوف بھی اسی درجہ کا ہوگا ۔ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فر ما تے ہیں أنا أ خشاکم اللہ یعنی میں تم سب سے زیادہ خداے تعالیٰ سے خوف و خشیت رکھتا ہوں ۔
شفاء قاضی عیاض میں یہ روایت ہے کہ عبد اللہ بن سخیر رضـی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس قت آپ نماز اداء فر ما رہے تھے ،آپ کے سینہء مبارک سے ایسی آواز سنائی دیتی تھی کہ جیسے دیگ کے جوش کی آواز ہوتی ہے ۔مطلب یہ کہ آپ خشیت الٰہی سے گریہ کو ضبط فر ما تے تھے مگر اندرونی اثر اس کا ظاہر ہوہی جاتاتھا ۔
شفاء میں ترمذی سے یہ روایت نقل کی ہے : عن ابی ذر قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : واللہ لو تعلمو ن ماأعلم لضحکتم قلیلاً و لبکیتم کثیراًو ما تلذ ذتم بالنساء علیٰ الفروش ولخرجتم الی الصعدات تجارون الی اللہ ، لو ددت انی شجرۃ تعضد یعنی ابو ذر کہتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے : ’’جو میں جانتا ہوں اگر تم لوگ جانتے تو بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے اور بستروں پر عورتوں سے لذت حاصل نہ کرتے اور خدا کی طرف فریاد وفغاں کر تے ہوئے راستو کی طرف نکل جاتے ،مجھے آرزو آتی ہے کہ کاش میں ایک درخت ہوتا جو جڑسے اکھا ڑ دیا جاتا ‘‘ ۔چونکہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان نہایت ارفع ہے اس لئے آخری جملہ یعنی لوددت انی شجرۃ تعضد کو محدثین نے ابو ذرؓ کا کلام قرارا دیا ہے ، ممکن ہے کہ فی الواقع یہی بات ہومگر ظاہراً بلحاظ سیاق حدیث شریف ہی کا جزو معلوم ہو تا ہے ،کیونکہ کوئی لفظ ایسا نہیں کہ جس سے معلوم ہو کہ وہ ابو ذرؓ کا کلام ہے ،اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام ہوتو بھی چنداں بعید نہیں اس لئے کہ حالتِ خوف جب دل پر طاری ہو تی ہے تو بیخوانہ ایسی باتیں نکل جا تی ہیں،اوراس میں کوئی کسر شان بھی نہیں ۔ کیونکہ جب دوسری قسم کی کیفیت طاری ہوتی ہے تواس وقت اسی کے اقتضاء کے موافق کلام صادر ہو تے ہیں ۔
اہل تصوف جن پر بحسب مقامات حالات طاری ہو تے رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جب کسی مقام سے متعلق کوئی حالت طاری ہوتی ہے اس وقت کیسی بے احتیاطی
ہوجا تی ہے ،یہی بے اختیاری اس حالت کے مناسب کلام پر مجبور کر تی ہے ۔دوسری احادیث کثرت سے وارد ہیں جس سے حضرت ؐ کی اصلی شان کا پتہ چلتا ہے کہ نہ وہ کسی نبی کو حاصل ہے نہ کسی فرشتہ کو ۔ اور اس حدیث میں گو ظاہر بینو ںکی نظر میں کسر شان معلوم ہو تی ہے مگر اس میں بھی حضرتؐ کی رفعت شان معلوم ہو تی ہے ،کیونکہ مقام خوف بھی ایک اعلیٰ درجہ کا مقام ہے اور اس کا انتہا ئی درجہ عدم ہے جس کی طرف آپ ؐ نے اشارہ فرمایا ہے ۔ بہر حال مقام خوف کے آثار ولوازم اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ اور اسی پرمنحصر نہیں ہر مقام کی بات جدا ہوتی ہے ۔
جنگ بدر میں جب کفار کثرت سے باساز و سامان جنگ میں صف آرا ہو ئے اور صحابہ تھوڑے اور بے سامانی کی حالت میں ،یہ دیکھ کر اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک حالت طاری تھی بار بار عرض کر تے تھے کہ : الٰہی اگر ان مسلمانوں پر مشرک غالب ہوں جائیں اور اس چھوٹی جماعت اہل ایمان کو تو ہلاک کر دے گا تو روئے زمین پر تیری عبادت موقوف ہو جا ئے گی ،یا اللہ مجھے رسوا مت فرمانا !اللہ مجھ سے جو تونے وعدہ فر مایا ہے وہ پورا کر ! حضرت قبلہ کی طرف متوجہ ہر کر ہاتھ اٹھاکر بار بار اس قسم کی دعائیں فر ما تے تھے یہا ںتک کہ چادر مبارک دوش مبارک پر سے گر گئی،ابو بکر ؓ نے چادر دوش مبارک پر اڑھا کر کہا یا رسول اللہ بس کیجئے امید ہے کہ قریب میں حق تعالیٰ اپنا وعدہ پور ا فرما ئے گا ۔کیا کوئی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ صدیق اکبر ؓ کاایمان آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے یقین سے بڑھا ہوا تھا اور معاذ اللہ آنحضرتؐ کو یقین نہ تھا جس کی وجہ سے اس قسم کی دعائیں کرنے کی ضرورت ہوئی ؟ ہر گز نہیں ! کجا یقین صدیق اکبر ؓ اور کجا یقینِ سید المرسلین و باعثِ ایجاد کون ومکان ! مگر بات یہ ہے کہ بڑوں کی بات بھی بڑ ہوتی ہے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت مشاہدۂ ذات کبریا ئی تھا جو تمام عالم سے غنی ہے کما قال تعالیٰ واللہ غنی عن العالمین وہاں مسلمان توکیا اسارا عالم تباہ ہو جائے تو کچھ پرواہ نہیں ، اسی ذات پاک کا نام ہادی بھی ہے اور مضل بھی ۔ اسی مقام میں ارشاد ہے کہ اگر سارا عالم جنت میں چلا جائے تو کچھ پرواہ نہیں اور دوزخ میں جائے توبھی کچھ پرواہ نہیں ۔ بہر حال بارگاہ ربانی میں نہ جمال کو ترحیح ہے نہ جلال کو ،چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر شان جمالی تھے اس وجہ سے آپ کو کمال درجہ کی تشویش تھی کہ کہیں شان جلالی کا ظہور نہ ہوجائے اور یہ تشویش یہاں تک بڑھی کہ گویا بیخودی کی حالت طاری کر دی ۔
سیرۃ نبویہ میں شیح دھلان ؒ نے علماء کا قول نقل کیا ہے کہ صدیق اکبر ؓ مقام رجاء میں تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقام خوف میں ۔ بہر حال جس حالت کاپورا وجود ہوتا ہے دوسرا کل خیالات مضمحل ہو جا تے ہیں ،حق تعالیٰ فر ما تاہے حتی اذا استیاس الرسل وظنو انہم قد کذبو ا جا ء ہم نصرنا یعنی :’’ یہاں تک (ڈھیل دی تھی ) کہ رسول بھی ناامید ہو چلے تھے اور خیال کر نے لگے تھے کہ ان سے غلط وعدے کئے گئے تھے تب ان کے پاس ہماری مد دپہنچی ‘‘ ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ انبیاء کو جو یقین اپنی نبوت کا اور وعدہ ہائے الٰہی کے پورے ہونے کا ہوتا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی وجہ سے زائل ہو سکے ،مگر جب امداد ہی میں بہت تاخیر ہوئی اور یہاں تک نوبت پہونچی کہ شدہ شدہ یاس کی حالت طاری ہوگئی تو اس وقت بمقتضائے بشریت یہ خیال پیداہو کہ وعدہائے امداد جھوٹے تو نہ تھے جو کسی واسطہ نے اپنی جانب سے کہہ دیا ؟!
حالت یاس کا مقتضی یہی ہے کہ ایسے خیالات پیداہوں ،کیونکہ جو حالت آدمی
پر غالب ہو تی ہے اس کے آثار کا ظہور میں آنا ضروری ہے ۔ دیکھئے کسی قسم کی حالت کا جب غلبہ ہوجا تاہے تو آدمی خودکشی کر لیتا ہے حالانکہ مقتضائے فطرت انسانی ہے کہ اپنی جان بچانے کے کی تدبیر یں کرے !مگر غلبہء حال اس مقتضائے فطرت پر بھی غالب آجا تاہے ۔شرع شریف نے بھی اس حالت کی رعایت رکھی ہے ،چنانچہ حالت اضطرار میں مردار کھانا درست ہوجا تا ہے ،مگر اسی حدتک کہ جس سے وہ حالت رفع ہو ، اسی وجہ چند لقموں کے بعد جب وہ حال باقی نہ رہے تو مرد ار جو ضرورتاً حلال ہو گیا تھا پھر مردار ہو جائے گا ۔یہیں سے قیاس ہو سکتا ہے کہ بزگان دین پر جب سماع وغیرہ میں سچی حالت وجد طاری ہو تی ہے تو بعض کلمات و حرکات ان سے ایسے صادر ہوتے ہیں جوشرعاً وعقلاً ناجائز ہو تے ہیں ؟مگر چونکہ وہ سچی حالت ہوتی ہے اس لئے وہ معذور سمجھے جا تے ہیں ۔
الحاصل جب اسباب کسی حالت کے جمع ہ وجائیں تو وہ حالت و کیفیت ضرور پیدا ہو جا ئے گی ،مثلاً خبر متواخر اور قرائن سے ثابت ہو جائے کہ فلاں مقام میں شیر ہے اور شیرکا مقابلہ بھی ہوجا ئے تو حالتِ خوف ضرور طاری ہو گی ، ہاں یہ بات اور ہے کہ جو انمر دشخص ہو اور اس کو اپنے اسلحہ اور قوت ارادی پر اعتماد ہو کہ شیر کو مارلوں گا تو اس کا خوف نہ ہوگا ، اور جب یہ خیال ہو گا کہ اس کے مقابلہ میں سر بر نہ ہو سکے گا تو ضرور خوف کرے گا ۔ اب کہئے کہ کون ایسا ہوسکتا ہے کہ اپنی ذاتی قوت اور طاقت پراس کو اس درجہ گھمنڈ ہو کہ خداے تعالیٰ کے مقابلہ میں سربر ہوسکے ؟ اور اسی وجہ سے تمام انبیاء اوراولیاء جب خدائے تعالیٰ کی صفت قہاریت پر نظر ڈالتے ہیں تو بے اختیاران پر حالتِ خوف طاری ہو جا تی ہے ،مگر کیونکہ ان کاایمان اس پر کامل ہو تا ہے اور پھر جب
صفات کمالیہ ان کے پیش نظر ہو جا تی ہیں تو رجاء کی کیفیت ان پر طاری ہو تی ہے
اسی وجہ سے علماء نے تصریح کی ہے کہ الا یمان بین الخوف والرجاء ۔ دراصل کلام الٰہی بھی اس کی تعلیم فرما تا ہے چنانچہ ارشاد ہے انہ لا ییا س من روح اللہ الا القوم الکافرون یعنی خداے تعالیٰ کے رحمت سے ناامید ہو نے والے سوائے کافروں کے اورکوئی نہیں ۔ اس سے ظاہر ہے کہ خداے تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھنا ضروری ہے ۔اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے فلا یأمن مکر اللہ الا القوم الخاسرون یعنی خداے تعالیٰ کے مکر سے بے فکر ہو جانے والے نقصان اٹھا نے والوں کے سوا اور کوئی نہیں ۔جس سے ظاہر ہے کہ مکر الٰہی سے خوف رکھنا ضروری ہے۔کنزالعمال میں روایت ہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :من زعم فی الجنۃ فہو فی النار یعنی جو شحص کہے کہ میں جنتی ہو ں تو سمجھ جائوکہ وہ دوزخی ہے ۔ وجہ اس کی یہ معلوم ہو تی ہے کہ اس کا ایمان آیت شریف فلا یامن مکر اللہ پر نہیں ہے ، اور جس کا ایمان پورے قرآن شریف پر نہ ہو اس کا دوزخی ہونا نص قرآنی سے ثابت ہے ، چنانچہ ارشاد ہے أفتؤ منون ببعض الکتاب و تکفر ون ببعض فما جزاء من یفعل ذٰلک منکم الا خزی فی الحیوٰ ۃ الدنیا ویوم القیٰمۃ یردون الی اشد العذاب یعنی کچھ آیتوں پرایمان لا تے اور کچھ پرنہیں ایمان لا تے ، ایسے لوگوں کی جزاء یہی ہے کہ دنیا میں رسوا ہوں اورقیامت میںسخت عذاب میں ڈالے جائیں ۔
اب اگر اس پر بھی کوئی کسی قسم کا خیال پیش نظر رکھ کر یہ سمجھ بیٹھے کہ میں جنتی ہوں جس کا لازمہ یہ ہے کہ خداے تعالیٰ نے جن کاموں کے کرنے کاحکم فرمایا ہے وہ نہ کرے گا او رجن کاموں کے کرنے سے منع فرمایا ہے وہ کیا کرے گا تواس پر یہ آیت صادق آجائے گی أفمن اتخذ الہہ ہو ہ و اضلہ اللہ علیٰ علم جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی خواہش کو معبود بنا لیا اور خداے تعالیٰ نے با وجود اس کے علم کے اس کو گمراہ کر دیا ۔خواہش کو معبود بنا نے کی یہی صورت ہے کہ خدا ے تعالیٰ کے ارشاد پر عمل نہ کرکے اپنی خواہش کی پیروی کر تا ہے ،پھر ایسے شخص کا ٹھکانہ حسب اصول عقلیہ وشرعیہ دوزخ ہی نہ ہو تو کیا ہو ۔
غرض کہ جس طرح خواہش نفسا نی میں اپنا تصرف کر تا ہے ،اسی طرح تمام اخلاق حمیدہ ذمیمہ میں اسی قسم کے تصرفات کر تاہے ،جس کا حال کتب اخلاق میں مصرح ہے ۔’’ اِحیا ء العلوم ‘‘کی کتاب الغرور یا اس کا ترجمہ ’’مذاق العارفین‘‘دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ کیسے کیسے شیطان کے دھوکے ہیں جن میں وسوسوں کے ذریعہ سے کامیاب ہو تا ہے ۔اسی طرح جسمانی لذتوں سے متعلق وسوسے ڈالتا ہے اور آنکھ ،کان،ناک ، منہ ، ہاتھ ، پائوں وغیرہ سے برے کام کر واکر چھوڑ تا ہے ۔اگر اس بیان کی تفصیل لکھی جائے تو ایک بڑی کتاب ہو جائے گی ، مگر بمصداق العاقل تکفیۃ الاشارۃ کے یہ اجمال بھی کافی ہو سکتا ہے ، بشرطیکہ ہر ایک امر میں غور وفکر سے کام لیا جائے ۔ غرضکہ وساوس شیطانی بے انتہاء ہیں ،بغیراللہ کی پناہ کے ممکن نہیں کہ آدمی اس کے شر سے بچ سکے ۔