حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اولادِ کرام

حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اولادِ کرام

پہلے ذکر آچکا ہے کہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تمام اولاد سوائے ابراہیم کے جو حضرت ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے بطن مبارک سے تھے حضرت خدیجۃ الکبری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے تھی۔ صاحبزادیاں بالاتفاق چار تھیں ۔ چاروں نے زمانہ اسلام پایا اور شرف ہجرت حاصل کیا مگر صاحبزادوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ قاسم و ابراہیم پر اتفاق ہے۔ بقول زُبیر بن بکار (متوفی۲۵۶ھ) صاحبزادے تین تھے۔ قاسم ، عبد الرحمن (جن کو طیب وطاہر بھی کہتے تھے) ، ابراہیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔ اکثر اہل نسب کی یہی رائے ہے۔ (۱ )

حضرت قاسم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ

آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اولاد کرام میں حضرت قاسم بعثت سے پہلے پیدا ہوئے اور قبل بعثت ہی سب سے پہلے انتقال فرماگئے۔ابن سعد نے بروایت محمد بن جبیر بن مطعم نقل کیا ہے کہ دو سال زندہ رہے۔ بقولِ مجاہد سات دن اور بقولِ مفضل بن غسان غلابی تیرہ مہینے زندہ رہے۔ ابن فارس کہتے ہیں کہ سن تمیز کو پہنچ گئے تھے۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی کنیت ابو القاسم ان ہی کے نام پر ہے۔ (۲ )

حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا

صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں ۔بعثت سے دس سال پہلے جب آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عمر مبارک تیس سال کی تھی پیدا ہوئیں ۔ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابو العاص بقیط بن ربیع سے ہوئی۔ ابو العاص حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی بہن ہالہ کے بطن سے تھے۔حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے کہنے سے ان کا نکاح بعثت سے پہلے حضرت زینب سے کردیا تھا۔ جب حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ

وَسَلَّمکو منصب رسالت عطا ہوا تو حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادیاں آپ پر ایمان لائیں مگر ابوالعاص شرک پر قائم رہا۔ اسی طرح حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بعثت سے پہلے اپنی صاحبزادی رُقیہ کا نکاح عُتْبَہ بن ابی لہب سے اور ام کلثوم کا نکاح عتیبہ بن ابی لہب سے کردیا تھا۔
جب آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تبلیغ کا کام شروع کیا تو قریش نے آپس میں کہا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) کی بیٹیاں چھوڑدو اور ان کو اس طرح تکلیف پہنچاؤ۔ چنانچہ وہ ابو العاص سے کہنے لگے کہ تو زینب کو طلاق دیدے ہم تیرا نکاح قریش کی جس لڑکی سے تو چاہے کرادیتے ہیں ۔ ابو العاص نے انکار کیا مگر ابو لہب کے بیٹوں نے حضرت رُقیہ و اُم کلثوم کو ہم بستری سے پیشتر طلاق دے دی۔
اگر چہ اسلام نے حضرت زینب و ابو العاص میں تفریق کردی تھی مگر مسلمانوں کے ضعف کے سبب سے عمل درآمد نہ ہوسکا یہاں تک کہ ہجرت وقوع میں آئی۔ جب قریش جنگ کے لئے بدر آئے تو ابو العاص بھی ان کے ساتھ آئے اور گرفتار ہوگئے۔ حضرت زینب نے ان کے بھائی عَمْرو کے ہاتھ مکہ سے ان کا فدیہ بھیجا جس میں وہ ہار بھی تھا جو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو پہنا کر پہلے پہل ابو العاص کے ہاں بھیجا تھا۔ جب حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر نہایت رقت طاری ہوگئی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا زمانہ یاد آگیا۔ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ارشاد سے صحابہ کرام نے فدیہ واپس کردیا اور ابو العاص کو بھی چھوڑ دیا۔ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابوالعاص سے وعدہ لیا کہ مکہ جاکر حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو مدینہ بھیج دیں گے۔
جب ابوالعاص مکہ روانہ ہوئے تو آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زید بن حارثہ اور ایک انصاری کو بھیجا کہ حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو ’’ بطنِ یاجج ‘‘ سے مدینہ لے آئیں ۔ ابو العاص نے مکہ میں پہنچ کر ایفائے وعدہ کیا اور حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے کہہ دیا کہ تم اپنے والد کے ہاں چلی جاؤ۔حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے چپکے چپکے سفر کی تیاری کی۔ابوالعاص کے بھائی کنانہ نے اونٹ پر سوار کرلیا اور تیر و کمان لے کر دن کے وقت روانہ ہوا۔ قریش کے چند آدمیوں نے تعاقب کیا اور ذو طویٰ میں جا گھیرا۔ ہبار بن اسود جو بعد میں ایمان لایا آگے بڑھا۔

اس نے حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا۔ وہ حاملہ تھیں حمل ساقط ہوگیا۔یہ د یکھ کر کنانہ نے ترکش ( ۱) میں سے تیر نکال کر زمین پر رکھ لئے اور کہنے لگا: ’’ جو شخص میرے نزدیک آئے گا وہ تیر سے بچ کر نہ جائے گا۔ ‘‘ یہ سن کر لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ ابو سفیان نے کہا: ’’ ٹھہرو! ہماری بات سن لو۔ ‘‘ اس پر کنانہ رک گیا۔ ابوسفیان بولا: ’’ ہمیں محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کے ہاتھ سے جو مصیبتیں پہنچی ہیں وہ تمہیں معلوم ہیں اب اگر تم دن دہاڑے ان کی لڑکی کو لے جاؤ گے تو لوگ اسے ہماری کمزوری پر محمول کریں گے ہمیں زینب کو روکنے کی ضرورت نہیں جب شور ہنگامہ کم ہوجائے گا تو رات کو اسے چوری چھپے لے جانا۔ ‘‘ کنانہ نے اس رائے کو تسلیم کیا اور چند روز کے بعد ایک رات حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اونٹ پر سوار کر کے لے آیااور زید اور انصاری کے حوالہ کردی۔ وہ دونوں ان کو مدینہ لے آئے۔
جُمَادَی الا ُولیٰ ۶ھ میں ابوالعاص ایک قافلۂ قریش کے ساتھ بغرض تجارت ملک شام کو گئے۔ان کے پاس قریش کابہت سا مال تھا۔مقام عیص کے نواح میں ان کو آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ایک سریہ ملاجو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖوَسَلَّم نے بسر کردگی حضرت زید بن حارثہ بھیجا تھا۔اس سریہ نے ابوالعاص کا تمام مال لے لیا ابوالعاص ہمراہیوں سمیت گرفتار ہوگئے۔حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے ابوالعاص کو پناہ دی۔ صبح کو جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖوَسَلَّم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پکار کر کہا کہ میں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے مسلمانوں میں سے ایک ادنیٰ شخص پناہ دے سکتا ہے اس لئے ہم نے بھی اس کو پناہ دی۔ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ مجھے یہ معلوم نہ تھا۔اس کے بعد رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سفارش پر ابوالعاص کا تمام مال واپس کردیا گیا۔ ابوالعاص نے مکہ میں پہنچ کر وہ مال قریش کے حوالہ کردیا۔ پھر کہا: اے گروہ قریش! کیا تم میں سے کسی کا مال میرے ذمے باقی ہے؟ سب بولے کہ نہیں ۔خدا تجھے جزائے خیر دے۔ بعد اَزاں ابوالعاص نے کلمہ شہادت پڑھ کر کہا : ’’ اللّٰہ کی قسم! حضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس اسلام لانے سے مجھے یہی امر مانع ہوا کہ تم گمان کرتے کہ میں نے صرف تمہارے مال ہضم کر جانے کے لئے ایک حیلہ کیا ہے۔ اس کے بعد ابوالعاص نے محرم ۷ھ میں مدینہ آکر اِظہار اِسلام کیااور آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو نکاحِ اَوَّل یا نکاحِ جدید کے ساتھ ان کے حوالہ کردیا۔

حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے ۸ ھ میں انتقال فرمایا۔ام ایمن سودہ بنت زمعہ اور ام سلمہ نے غسل دیا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور ابوالعاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے قبر میں اتارا۔
حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی اولاد ایک لڑکا علی نام اور ایک لڑکی اُمَامہ تھی۔ حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی والدہ ماجدہ کی زندگی میں چھوٹی عمر میں قریب بلوغ کے وفات پائی۔ ابن عساکر کہتے ہیں کہ بعض اہل نسب نے ذکر کیا ہے کہ وہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے۔
آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اُمَامہ سے بڑی محبت تھی۔نماز میں بھی ان کو اپنے کندھے پر رکھ لیتے جب رکوع کرتے تو اتار دیتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو پھر سوار کرلیتے۔ ایک دفعہ نجاشی نے حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام کی خدمت میں ایک حلہ بھیجا جس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی انگوٹھی کا نگینہ حبشی تھا۔حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ انگوٹھی اُمَامہ کو عطا فرمائی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک روز کسی نے حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا جس میں ایک زَرِّین ہار (۱ ) تھا۔ ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سب ایک مکان میں جمع تھیں اُمامہ مکان کے ایک گوشہ میں مٹی سے کھیل رہی تھیں حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہم سب سے پوچھا کہ یہ ہار کیسا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اس سے خوبصورت و عجیب ہار ہمارے دیکھنے میں نہیں آیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں اسے اپنے محبوب ترین اہل کو دونگا۔ ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سمجھیں کہ عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکو ملے گامگر حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اُمَامہ کو بلایا اور اپنے دست مبارک سے وہ ہار ان کے گلے میں ڈال دیا۔
حضرت ابوالعاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت زبیر بن العوام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اُمَامہ کے نکاح کردینے کی وصیت کر گئے تھے۔حضرت فاطمہ زہراء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے مرتے وقت حضرت علی مرتضی کَرَّم اللّٰہ تَعَالٰی َوجْہَہُ الْکَرِیْم سے وصیت کی کہ میرے بعد اُمَامہ سے نکاح کر لینا اس لئے حضرت زہراء کے بعد حضرت زبیر نے امامہ کا نکاح حضرت علی سے کردیا۔ حضرت علی نے حضرت مغیرہ بن نوفل سے وصیت کی کہ میرے بعد تم امامہ سے نکاح کرلینا۔ چنانچہ
حضرت مغیرہ نے حضرت علی کَرَّم اللّٰہ تَعَالٰی َوجْہَہُ الْکَرِیْم کی شہادت کے بعد امامہ سے نکاح کرلیا اور ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام یحییٰ تھا۔ بعضے کہتے ہیں کہ اُمامہ کی کوئی اولاد نہیں ۔ حضرت اُمامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے حضرت مُغیرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ہاں وفات پائی۔ (۱ )

________________________________
1 – شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ ، المقصد الثانی ۔۔۔إلخ ، الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام ۔۔۔ إلخ ، ج۴، ص ۳۱۳۔۳۱۴۔علمیہ
2 – شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ ، المقصد الثانی ۔۔۔ إلخ ، الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام ۔۔۔ إلخ ، ج۴، ص ۳۱۶۔۳۱۷۔علمیہ

Exit mobile version