حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے

فرزند ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے لیے حکمت اورفقہ وتفسیرکے علوم کے حاصل ہونے کے لیے دعا مانگی ۔ ان کا علم بہت ہی وسیع تھا اسی لئے کچھ لوگ ان کو بحر (دریا) کہتے تھے اورحبرالامۃ (امت کا بہت بڑا عالم)یہ تو آپ کا بہت ہی مشہور لقب ہے ۔ یہ بہت ہی خوبصورت اورگورے رنگ کے نہایت ہی حسین وجمیل شخص تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو کم عمری کے باوجود امور خلافت کے اہم ترین مشوروں میں شریک کرتے رہے ۔
لیث بن ابی سلیم کا بیان ہے کہ میں نے طاؤس محدث سے کہا کہ تم اس نوعمر شخص (عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کی درس گاہ سے چمٹے ہوئے ہواور اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی درس گاہوں میں نہیں جارہے ہو۔
طاؤس محدث نے فرمایا کہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ستر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ان کے مابین کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تھا تو وہ سب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول پر عمل کرتے تھے اس لئے مجھے ان کے علم کی وسعت پر اعتماد ہے اس لئے میں ان کی درس گاہ چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خوف خدا کا بہت زیادہ غلبہ رہتا۔ آپ ا س قدر زیادہ روتے کہ آپ کے دونوں رخساروں پر آنسوؤں کی دھار بہنے کا نشان پڑگیا تھا۔ ۶۸ھ ؁میں بمقام طائف ۷۱ برس کی عمر میں وصال ہوا۔ (1)(اکمال ،ص۶۰۴واسدالغابہ،ج۳،ص۱۹۲)

کرامات

ان کی کرامتوں میں سے تین کرامتیں بہت زیادہ مشہورہیں جودرج ذیل ہیں:

کفن میں پرند

میمون بن مہران تابعی محدث کا بیان ہے کہ میں طائف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے جنازہ میں حاضر تھا جب لوگ نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو بالکل ہی اچانک نہایت تیزی کے ساتھ ایک سفید پرند آیا اوران کے کفن کے اندر داخل ہوگیا ۔ نماز کے بعد ہم لوگوں نے ٹٹول ٹٹول کر بہت تلاش کیا مگر اس پرند کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا اور کیا ہوا؟(1)(مستطرف ،ج۲،ص۲۸۱)

غیبی آواز

جب لوگ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکو دفن کر چکے اور قبر پر مٹی برابر کی جا چکی تو تما م حاضرین نے ایک غیبی آوازسنی کہ کوئی شخص بلند آوازسے یہ تلاوت کر رہا ہے

یٰۤاَ یَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃ ﴿۲۷﴾٭ۖارْجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ (2)

اے اطمینان پانے والی جان!تواپنے رب کے دربار میں اس طرح حاضر ہوجا کہ تو خدا سے خوش ہے اور خداتجھ سے خوش ہے۔(3)

(مستطرف ،ج۲،ص۲۸۱وکنزالعمال،ج۱۶وحاشیہ کنزالعمال،ص۷۳)

حضرت جبریل علیہ السلام کا دیدار

یہ بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی ایک کرامت ہے کہ انہوں نے دو مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔(1) (اکمال ،ص۶۰۴)

Exit mobile version