حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ارجمند ہیں ۔ ان کی والدہ کا نام”اسماء بنت عمیس ”رضی اللہ تعالیٰ عنہاہے ۔ ان کے والدین جب ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تو یہ حبشہ ہی میں پیداہوئے پھر اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے۔یہ بہت ہی دانشمندوحلیم، نہایت ہی علم وفضل والے اوربہت ہی پاکباز وپرہیزگار تھے اور سخاوت میں تو اس قدربلند مرتبہ تھے کہ ان کو بَحْرُالْجُوْدِ(سخاوت کا دریا) اوراَسْخَی الْمُسْلِمِیْنَ (مسلمانوں میں سب سے زیادہ سخی)کہتے تھے ۔ نوّے برس کی عمر پاکر ۸۰ھ ؁میں مدینہ منورہ کے اندر وفات پائی۔(1)
(اکما ل فی اسماء الرجال، ص۶۰۴)
ان کے وصال کے وقت عبدالملک بن مروان اموی خلیفہ کی طرف سے مدینہ منورہ کے حاکم حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہماتھے ان کو حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی خبر پہنچی تو وہ آئے اور خود اپنے ہاتھوں سے ان کو غسل دے کر کفن پہنایا اوران کا جنازہ اٹھا کر جنت البقیع کے قبرستان تک لے گئے ۔
حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے آنسو ان کے رخسار پر بہہ رہے تھے اور وہ زور زور سے یہ کہہ رہے تھے کہ اے عبداللہ بن جعفر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ بہت ہی بہترین آدمی تھے، آپ میں کبھی کوئی شر تھا ہی نہیں، آپ شریف تھے ، لوگوں کے ساتھ نیک برتاؤکرنے والے نیکو کار تھے۔ پھر حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے آپ

کے جنازہ کی نماز پڑھائی ۔ آپ کی عمر شریف کے بارے میں اختلاف ہے ۔ بعض نے کہا کہ آپ کی عمر نوّے برس کی تھی اوربعض کا قول ہے کہ بانوے برس کی عمر میں آپ نے وصال فرمایا۔اسی طرح آپ کے وصال کے سال میں بھی اختلاف ہے۔ ۸۰ھ؁،
۸۲ھ؁،۸۵ھ؁ تین اقوال ہیں ۔ (1)(اسدالغابہ،ج۳،ص۱۳۳تا۱۳۵)

کرامات
سجدہ گاہ سے چشمہ اُبل پڑا

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میرے باپ کے ذمہ تمہار اکچھ قرض باقی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس کو معاف کردیا ۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اس قرض کو معاف کرانا ہرگز ہرگز پسند نہیں کروں گا ہاں یہ اوربات ہے کہ میرے پاس نقد رقم نہیں ہے لیکن میرے پا س زمینیں ہیں ۔ آپ میری فلاں زمین اپنے اس قرض میں لے لیجئے مگر اس زمین میں کنواں نہیں ہے اور آبپاشی کے لئے دوسرا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایاکہ بہت اچھا،بہرحال میں نے آپ کی وہ زمین لے لی۔پھر آپ اس زمین میں تشریف لے گئے اوروہاں پہنچ کر اپنے غلام کو مصلّی بچھانے کا حکم دیا اورآپ نے اس جگہ دورکعت نماز پڑھی اوربڑی دیر تک سجدہ میں پڑے رہے ۔ پھر مصلّی اٹھاکر آپ نے غلام سے فرمایا کہ اس جگہ زمین کھودو۔ غلام نے زمین کھودی تو ناگہاں وہاں سے پانی کا ایک ایسا زخار چشمہ ابلنے لگا جس سے نہ صرف اس زمین بلکہ آس پاس کی تمام زمینوں کی آبپاشی وسیرابی کا انتظام ہوگیا۔(اسد الغابہ ،ج۳،ص۱۳۵)

قبرپر اشعار

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر منورپر مندرجہ ذیل دو اشعار لکھے ہوئے دیکھے گئے مگر یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ یہ کس کے اشعار ہیں اورکس نے لکھے ہیں ؟اس لئے ہم اس کو آپ کی ایک کرامت شمار کرتے ہیں ۔ اشعاریہ ہیں ؎

مُقِیْمٌ اِلٰی اَنْ یَّبْعَثَ اللہُ خَلْقَہٗ
لِقَاؤُکَ لَا یُرْجٰی وَاَنْتَ قَرِیْبٌ

(آپ اس وقت تک یہاں مقیم رہیں گے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو قبروں سے اٹھائے گا۔ آپ کی ملاقات کی کوئی امید ہی نہیں کی جاسکتی حالانکہ آپ بہت ہی قریب ہیں ۔)

تَزِیْدُ بَلًی فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ
وَتَنْسَی کَمَا تُبْلٰی وَاَنْتَ حَبِیْبٌ

(آپ ہر دن اورہر رات پرانے ہوتے جائیں گے اورجیسے جیسے آپ پرانے ہوتے جائیں گے لوگ آ پ کو بھولتے جائیں گے حالانکہ آپ ہر شخص کے محبوب ہیں۔ )(1)
(اسد الغابہ ، ج۳،ص۱۳۵)

تبصرہ

حضرت ابان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت امیرالمؤمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزندارجمنداورخاندان بنوامیہ کے ایک ممتاز فردہیں اورحضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاندان بنو ہاشم کے چشم وچراغ ہیں اورباوجودیکہ دونوں خاندانوں میں خاندانی عصبیت کی بناء پر خصوصاًحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد کشیدگی رہا

کرتی تھی مگر حضرت ابان رضی اللہ تعالیٰ عنہ باوجودیکہ عثمانی تھے خاندان بنو امیہ کے ایک نامور فرزند تھے پھر اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کی طر ف سے حاکم تھے لیکن ان سب وجوہات کے باوجود انہوں نے حاکم مدینہ منورہ ہوتے ہوئے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دیاکفن پہنایا اورجنت البقیع کے قبرستان تک روتے ہوئے جنازہ اٹھایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی نیک نفس اورخاندانی عصبیت سے بالکل ہی پاک صاف تھے اورحضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر مقبول خلائق تھے کہ خاندان بنو ہاشم وخاندان بنو امیہ دونوں کی نگاہوں میں انتہائی محترم ومعظم تھے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم

Exit mobile version