حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت سعدبن معاذبن النعمان انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ مدینہ منورہ کے رہنے والے بہت ہی جلیل القدر صحابی ہیں۔ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لے جانے سے پہلے ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ منورہ بھیج دیا کہ وہ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیں اورغیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہیں۔ چنانچہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دامن اسلام میں آگئے اور خود اسلام قبول کرتے ہی یہ اعلان فرمادیا کہ میرے قبیلہ بنو عبدالاشہل کا جو مرد یا عورت اسلام سے منہ موڑے گا میرے لئے حرام ہے کہ میں اس سے کلام کروں ۔ آپ کا یہ اعلان سنتے ہی قبیلہ بنو عبدالاشہل کا ایک ایک
بچہ دولت اسلام سے مالا مال ہوگیا۔ اس طرح آپ کا مسلمان ہوجانا مدینہ منورہ میں اشاعت اسلام کے لیے بہت ہی بابرکت ثابت ہوا۔ (1)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی بہادر اورانتہائی نشانہ باز تیر انداز بھی تھے ۔ جنگ بدراور جنگ احد میں خوب خوب دادِ شجاعت دی، مگر جنگ خندق میں زخمی ہوگئے اوراسی زخم میں شہادت سے سرفراز ہوگئے ۔ ان کی شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک چھوٹی سی زرہ پہنے ہوئے نیزہ لیکر جوش جہاد میں لڑنے کے لئے میدان جنگ میں جارہے تھے کہ ابن العرقہ نامی کافر نے ایسا نشانہ باندھ کر تیر مارا کہ جس سے آپ کی ایک رگ جس کا نام ”اکحل”ہے کٹ گئی ۔ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کے ليے مسجدنبوی علی صاحبہاالصلوۃ والسلام میں ایک خیمہ گاڑااوران کا علاج شروع کیا۔ خود اپنے دست مبارک سے دو مرتبہ ان کے زخم کو داغا اور ان کا زخم بھرنے لگ گیا تھالیکن انہوں نے شوق شہادت میں خداوند تعالیٰ سے یہ دعامانگی :
”یا اللہ! عزوجل تو جانتا ہے کہ کسی قوم سے مجھے جنگ کرنے کی اتنی تمنا نہیں ہے جتنی کفار قریش سے لڑنے کی تمنا ہے جنہوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اوران کو ان کے وطن سے نکالا، اے اللہ ! عزوجل میرا تو یہی خیال ہے کہ اب تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کردیا ہے لیکن اگر ابھی کفار قریش سے کوئی جنگ باقی رہ گئی ہو جب تو مجھے زندہ رکھنا تاکہ میں تیری راہ میں ان کافروں سے جنگ کروں اور اگر اب ان لوگوں سے کوئی جنگ باقی نہ رہ گئی ہو تو تو میرے اس زخم کو پھاڑ دے اور اسی زخم میں تو مجھے شہادت عطافرمادے ۔ ”
خدا کی شان کہ آپ کی یہ دعا ختم ہوتے ہی بالکل اچانک آپ کا زخم پھٹ گیا اورخون بہہ کر مسجد نبوی میں بنی غفار کے خیمے کے اندرپہنچ گیا۔ ان لوگوں نے چونک کر کہا کہ اے خیمہ والو!یہ کیسا خون ہے جو تمہاری طرف سے بہ کر ہماری طرف آرہا ہے؟ جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخم سے خون جاری تھا اسی زخم میں ان کی شہادت ہوگئی ۔(1)(بخاری ، ج۲،ص۵۹۱باب مرجع النبی من الاحزاب)
عین وفات کے وقت ان کے سرہانے حضورانور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ جان کنی کے عالم میں انہوں نے آخری بار جمال نبوت کا دیدار کیا اورکہا : السلام علیک یا رسول اللہ! پھر بلند آواز سے کہا کہ یارسول اللہ!عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میں گواہی دیتاہوں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اورآپ نے تبلیغ رسالت کا حق ادا کردیا۔ (2)(مدارج النبوۃ،ج۲،ص۱۸۱)
آپ کا سال وصال ۵ہجری ہے ۔ بوقت وصال آ پ کی عمر شریف ۳۷برس کی تھی ۔ جنت البقیع میں مدفون ہیں ۔ جب حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کو دفنا کر واپس آرہے تھے تو شدت غم سے آپ کے آنسوؤں کے قطرات آ پ کی ریش مبارک پرگر رہے تھے۔(3)(اکمال ، ص ۵۹۶واسدالغابہ، ج۲،ص۲۹۸)

Exit mobile version