حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت سعدبن الربیع بن عمروانصاری خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیعۃ العقبہ اولیٰ اور بیعۃ العقبہ ثانیہ دونوں بیعتوں میں شریک رہے اور یہ انصار میں سے خاندان بنی الحارث کے سردار بھی تھے ۔زمانہ جاہلیت میں جبکہ عرب میں لکھنے پڑھنے کا بہت ہی کم رواج تھااس وقت یہ کاتب تھے ۔ یہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے انتہائی شیدائی اوربے حد جاں نثار صحابی ہیں ۔
حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی کا بیان ہے کہ میں امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں حاضر ہوئی تو انہوں اپنے بدن کی چادر اتار کرمیرے لئے بچھا دی اورمجھے اس پر بٹھایا۔ اتنے میں حضر ت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے اورپوچھا :یہ لڑکی کون ہے ؟امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ اس شخص کی بیٹی ہے جس نے حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے زمانے ہی میں جنت کے اندر اپنا ٹھکانابنا لیا اورمیں اور تم یوں ہی رہ گئے ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ اے خلیفہ رسول ! وہ کون شخص ہیں؟تو آپ نے فرمایاکہ”سعد بن الربیع” رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تصدیق کی۔
جنگ بدر میں نہایت شجاعت کے ساتھ کفار سے معرکہ آرائی کی۔جنگ احد میں بارہ کافروں کو ایک ایک نیزہ مارا اور جس کو ایک نیزہ مارا وہ مرکر ٹھنڈا ہوگیا ۔ پھر گھمسان کی جنگ میں زخمی ہوکر اسی جنگ احد میں ۳ھ؁ میں شہید ہوگئے اورحضرت

خارجہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایک قبر میں دفن ہوگئے ۔(1)
(اکمال ،ص۵۹۶،حاشیہ کنزالعمال،ج۱۶،ص۳۶،اسدالغابہ ،ج۲،ص۲۷۷)

کرامت
دنیا میں جنت کی خوشبو

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھ کو حضر ت سعد بن الربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش کی تلاش میں بھیجا اورفرمایا کہ اگر وہ زندہ ملیں تو تم ان سے میراسلام کہہ دینا۔ چنانچہ جب تلاش کرتے کرتے میں ان کے پاس پہنچا تو ان کو اس حال میں پایا کہ ابھی کچھ کچھ جان باقی تھی میں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کاسلام پہنچایا تو انہوں نے جواب دیا اور کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے میرا سلام کہہ دینا اورسلام کے بعد یہ بھی عرض کردینا کہ یا رسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میں جنت کی خوشبو میدان جنگ میں سونگھ چکا اورمیر ی قوم انصار سے میرا یہ آخری پیغام کہہ دینا کہ اگر تم میں ایک آدمی بھی زندہ رہا اورکفار کا حملہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تک پہنچ گیا تو خدا تعالیٰ کے دربار میں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہوسکتا اورتمہاراوہ عہد ٹوٹ جائے گا جو تم لوگوں نے بیعۃ العقبہ میں کیا تھا ، اتناکہتے کہتے ان کی روح پرواز کر گئی ۔
(حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۷۰بحوالہ حاکم وبیہقی)

بعض روایات سے پتہ چلتاہے کہ جس شخص کو حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش کا پتہ لگانے کے لیے بھیجا تھا وہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے چنانچہ حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہی قول ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (1)(اسدالغابہ،ج۲،ص۲۷۷)

تبصرہ

اللہ اکبر!غورفرمائيے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے کتنی والہانہ محبت اورکس قدر عاشقانہ لگاؤ تھا کہ جان کنی کا عالم ہے ، زخموں سے نڈھال ہیں مگر اس وقت میں بھی حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا خیال دل ودماغ کے گوشہ گوشہ میں چھایا ہوا ہے ۔ اپنے گھر والوں کے لیے ، اپنی بچیوں کے لیے کوئی وصیت نہیں فرماتے مگر رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے لیے اپنی ساری قوم کو کتنا اہم آخری پیغام دیتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی یہی وہ نیکیاں ہیں جو قیامت تک کسی کو نصیب نہیں ہوسکتیں اور اسی لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ساری امت میں وہی درجہ ہے جو آسمان پرستاروں کی برات میں چاند کا درجہ ہے ۔
حضرت سعدبن الربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کوئی بیٹا نہیں تھا فقط دو صاحبزادیاں تھیں جن کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کی میراث میں سے دو ثلث عطا فرمایا۔واللہ تعالیٰ اعلم

Exit mobile version