حضرت زینب بنت جحش اَسد یہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا

حضرت زینب بنت جحش اَسد یہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا

 

ان کی پہلی شادی حضرت زید بن حارِثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہوئی تھی۔ حضرت زید قبیلہ قضاعہ میں سے تھے۔ لڑکپن میں گرفتار ہوکر مکہ میں حضرت خدیجۃ الکبری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ہاتھ بطور غلام فروخت ہوئے۔ حضرت خدیجہ نے انہیں رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حوالے کردیا۔ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نبوت سے پہلے ان کو آزاد کر کے متبنٰی (۲ ) بنالیا اس لئے لوگ ان کو زید بن محمد کہا کرتے تھے۔ حضرت زید سابقین اِلی الاسلام ( ۳) میں سے تھے ان پر رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خاص توجہ تھی۔ آپ اہم امور میں ان سے کام لیتے اور لشکر کی

قیادت تک ان کے سپردکردیتے۔ اسی وجہ سے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی اُمَیْمَہ بنت عبد المطلب کی صاحبزادی زینب بنت جحش سے کردینا چاہا مگر زینب اور ان کا بھائی راضی نہ ہوئے۔ اس پر یہ آیت اتری:
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ (۳۶) (احزاب، ع ۵)
کسی مسلمان مرد یا عورت کو لائق نہیں جس وقت خدا اور اس کا رسول کوئی کام مقرر کردے کہ ان کو اپنے کام میں اختیار ہواور جو کوئی اللّٰہاور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔ ( ۱)
پس حضرت زینب نکاح پر راضی ہوگئیں اور نکاح ہوگیا۔
حضرت زید اگر چہ عربی الاصل تھے مگر قریشی نہ تھے۔ قریش کی لڑکیوں خصوصاً اولاد عبد المطلب کے لئے اَشرافِ قریش میں کفو تلاش کیے جایا کرتے تھے اس لئے کچھ عرصہ طبعی طور پر حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی حرکاتِ عادِیہ کو کبر و تعاظم ( ۲) پر محمول کرنے لگے اور حضرت زینب بھی ان سے متکدر رہنے لگیں ۔ چنانچہ حضرت زید نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ان کی شکایت کی۔حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس طرح کی باتوں پر طلاق نہیں دیا کرتے۔ اسی امر کی طرف آیۂ ذیل میں اشارہ ہے۔
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَۚ-وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُؕ- (احزاب، ع۵)
اور جس وقت تو کہہ رہا تھا اس شخص سے جس پر اللّٰہ نے اور تونے انعام کیا ہے کہ اپنی بیوی کو اپنے لئے تھام رکھ اور خدا سے ڈر اور تو اپنے جی میں چھپاتا تھا اس چیز کو جسے اللّٰہ ظاہر کرنے والا ہے اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا اور اللّٰہ زیادہ لائق ہے اس کا کہ تو اس سے ڈرے۔ (۳ )

بایں ہمہ اگر زید ان کو طلاق دیتے تو ایسی سیدہ شریفہ کے لئے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جیسا کفو اور کون ہو سکتا تھا اس لئے حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خاطر اَشرف میں آتا تھا کہ بصورتِ طلاق زینب کی تطییب خاطر (۱ ) اور اس کے حقوق کی رعایت کے لئے ان سے نکاح کرلینا ضروری ہوگامگر آپ اسے ظاہر نہ کر سکتے تھے کیونکہ جاہلیت میں متبنٰی ( ۲) کو بمنزلہ ولد حقیقی ( ۳) سمجھتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ متبنیٰ کی مطلقہ ( ۴) کے ساتھ نکاح جائز نہیں ۔
آخر کار حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے طلاق دے دی۔ عدت گزرنے پر رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زید ہی کو نکاح کا پیغام دینے کے لئے زینب کے پاس بھیجا۔ حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے جواب دیا کہ میں استخارہ کرلوں ۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی:
فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآىٕهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًاؕ-وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا (۳۷)
(احزاب، ع۵)
پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دیدی کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں کی بیبیوں میں جب ان سے ان کا نکاح ختم ہوجائے اور اللّٰہ کا حکم ہو کر رہتا ہے۔ ( ۵)
اس طرح حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا نکاح ( ۳ ھ یا ۵ ھ میں ) 35 برس کی عمر میں ہوگیا۔ حضرت زینب فخر کیا کرتی تھیں کہ دیگر ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکا نکاح تو ان کے باپ یا بھائی یا اہل نے کردیا مگر میرا نکاح اللّٰہ تعالٰی نے آسمان سے کردیا۔ اس نکاح میں یہ حکمت بھی تھی کہ پسر خواندہ ( ۶) کی مطلقہ کا حکم معلوم ہوگیا۔
جب یہ نکاح ہوگیا تو مخالفوں نے کہا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) نے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام کردیا مگر خود اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس پر یہ آیتیں اتریں :

مَا كَانَ محمد اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (احزاب، ع۵)
محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَسَلَّم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن خدا کے پیغمبر اور خاتم النبیین ہیں ۔ (۱ )
وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْؕ- (احزاب، ع۱)
اور تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا یہ تمہارے مونہوں کی بات ہے۔ (۲ )
پس حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُجو زید بن محمد کہلاتے تھے اس کے بعد زید بن حارثہ کہلانے لگے۔
حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پھوپھی زاد بہن ہونے کے علاوہ جمال میں بھی ممتاز تھیں اس لئے ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّمیں سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ساتھ ہمسری کا دم بھرتی تھیں چنانچہ خود حضرت صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : کَانَتْ تُسَامِیْنِیْ ۔ وہ میرا مقابلہ کرتی تھیں ۔
آپ نہایت راست گو اور پارسا تھیں ۔جب حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا پر بہتان لگایا گیا تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ سے حضرت عائشہ کی نسبت پوچھا۔ آپ نے صاف کہہ دیا: وَ اللّٰہِ مَا عَلِمْتُ اِلَّا خَیْرًا ۔ واللّٰہ! مجھے عائشہ کی بھلائی کے سوا کسی چیز کا علم نہیں ۔
اسی راستی سے متاثر ہو کر حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا کہ میں نے کوئی عورت زینب سے دین میں بہتر، خدا سے زیادہ ڈرنے والی، زیادہ سچ بولنے والی اور زیادہ صلہ رحم اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی۔
ایک دفعہ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کچھ مال مہاجرین میں تقسیم فرمارہے تھے۔ حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اس معاملہ میں کچھ بول اٹھیں ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ناگوار گزرا۔ حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا: عمر! ان کو جانے دو ! یہ اَوَّاہ یعنی خاشع متضرع ( ۳ ) ہیں ۔

حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا زاہدہ اور طبیعت کی فیاض تھیں ۔اپنے ہاتھ سے معاش پیدا کرتیں اور خدا کی راہ میں لٹا دیتیں ۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کا سالانہ وظیفہ بارہ ہزار درہم مقرر کیا تھا جو انہوں نے صرف ایک سال لیااور اپنے حاجت مند رشتہ داروں میں تقسیم کر کے دعا مانگی کہ خدایا! یہ عطیہ مجھے اگلے سال نہ ملے۔ حضرت فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ خبر لگی تو انہوں نے حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے لئے ایک ہزار اور بھیجا مگر حضرت زینب نے اسے بھی تقسیم کردیا۔ آپ کی دعا قبول ہوگئی اور آیندہ سال وفات پائی۔
ایک روز آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے فرمایا: اَسْرَعُکُنَّ لِحَاقًا بِیْ اَطْوَلُکُنَّ یَدًا ۔تم میں سے مجھ سے جلدی ملنے والی وہ ہے جس کا ہاتھ تم سب سے لمبا ہے۔
ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اس ارشاد کو حقیقت پر محمول کرتی تھیں ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال شریف کے بعد جب ہم کسی ایک کے حجرے میں جمع ہوتیں تو ہم دیوار پر اپنے ہاتھوں کو ناپا کرتی تھیں ۔ ہمارا یہی خیال رہا یہاں تک کہ حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے جو کوتاہ قد تھیں ہم سب سے پہلے انتقال فرمایااس وقت ہماری سمجھ میں آیا کہ ارشاد مذکور میں ہاتھ کا لمبا ہونا فیاضی کی طرف اشارہ تھا۔
جب حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنا کفن تیار کر رکھا ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی ایک کفن بھیجیں گے۔ دونوں میں سے ایک کو خیرات کردینا۔ چنانچہ اس وصیت پر عمل کیا گیا۔حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے مدینہ منورہ میں ۲۰ ھ میں پچاس یا تریپن برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت فاروق کی یہ آرزو تھی کہ خود حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو قبر میں اتاریں اس لئے ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَ سے دریافت کیا کہ ان کو قبر میں کون اتارے؟ جواب آیا کہ جو حیات میں ان کے گھر میں داخل ہوا کرتا تھا۔
حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے گیارہ حدیثیں مروی ہیں جن میں سے دو پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے۔ (۱ )

________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللّٰہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللّٰہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صریح گمراہی بہکا۔ (پ۲۲،الاحزاب:۳۶)۔علمیہ
2 – بڑائی۔
3 – ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اللّٰہ نے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی کہ اپنی بی بی اپنے پاس رہنے دے اور اللّٰہ سے ڈراور تم اپنے دل میں رکھتے تھے وہ جسے اللّٰہ کو ظاہر کرنا منظور تھااور تمہیں لوگوں کے طعنے کا اندیشہ تھا اور اللّٰہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس کا خوف رکھو۔ (پ۲۲،الاحزاب:۳۷)۔علمیہ

Exit mobile version