حضرت اُم سلمہ بنت ابی امیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا
ہند نام، ام سلمہ کنیت تھی۔ باپ کا نام حذیفہ اور بقول بعض سہیل تھا۔ماں کا نام عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھا۔ پہلے اپنے چچا زاد بھائی ابو سلمہ (عبد اللّٰہ) بن عبد الاسد بن مغیرہ کے نکاح میں تھیں جو آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے رضاعی بھائی تھے۔ ام سلمہ و ابو سلمہ دونوں قدیم الاسلام تھے۔دونوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ چنانچہ ان کے بیٹے سلمہ حبشہ ہی میں پیدا ہوئے۔پھر مکہ میں آئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ام سلمہ پہلی عورت ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ میں آئیں ۔مدینہ ہی میں ان کے ہاں عمر اور درہ و زینب پیدا ہوئیں ۔
حضرت ابو سلمہ بدر و اُحد میں شریک ہوئے۔اُحد میں زخمی ہوگئے ایک ماہ کے بعد زخم چنگا ہوگیا۔ پھر رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو ایک سریہ میں بھیج دیا۔ ایک ماہ کے بعد واپس آئے تو زخم پھر پھوٹ آیااور ۸جمادی الاخریٰ ۴ ھ میں وفات پائی۔ وفات کے وقت حضرت ام سلمہ حاملہ تھیں ۔ وضع حمل کے بعد حضرت ابوبکر و عمر نے خواستگاری کی تو ام سلمہ نے انکار کردیا۔ پھر رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نکاح کا پیغام بھیجا تو مرحبا کہہ کر یہ عذر پیش کیے:
{1} …میں سخت غیور عورت ہوں ۔
{2} …صاحب عیال ہوں ۔
{3} …میرے اولیاء میں سے کوئی یہاں نہیں کہ میرا نکاح کردے۔ ایک روایت میں ہے کہ میری عمر زیادہ ہے۔
رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان عذروں کا تسلی بخش جواب دیا اور نکاح ہوگیا۔
جب حدیبیہ میں صلح نامہ لکھا جاچکا تو آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ اب اٹھوقربانیاں دو اور سر منڈواؤ۔ چونکہ صحابہ کرام کو بے نیل مرام ( ۱) واپسی سے رنج و ملال تھا۔ انہوں نے تعمیل ارشاد میں تامُل کیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خفا ہو کر حضرت ام سلمہ کے خیمہ میں تشریف لے آئے اور اِمْتِثالِ اَمر میں توقف کی شکایت کی۔ اُم سلمہ نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ ان کو معذور رکھیں ، ان پر ایک امر عظیم گزرا ہے، ان کا خیال تو فتح مکہ کا تھاان کو یقین تھا کہ وہ مکہ میں عمرہ بجا لائیں گے۔ باوجود فقدانِ مطلوب آپ نے قریش سے صلح کرلی اور ان کی نہ سنی۔ اگر خاطر اَشرف اس پر ہے کہ وہ نحر و حلق کریں تو آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں اور خود نحر و حلق فرمائیں ۔یہ دیکھ کر ان کو بجز اِتباع چارہ نہ ہوگا۔چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا اور حضرت اُم سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی تدبیر سے وہ مشکل حل ہوگئی اور یہ ان کی دانشمندی اور صواب رائے کی واضح دلیل ہے۔
حضرتِ اُم سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے کتب متداولہ میں 378حدیثیں مروی ہیں جن میں سے تیرہ پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہے اور تین کے ساتھ امام بخاری اور تیرہ کے ساتھ امام مسلم منفرد ہیں ۔ باقی دیگر کتب میں ہیں ۔
ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّمیں سب کے بعد حضرت اُم سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے 84 برس کی عمر میں وفات پائی۔ ان کے سنہ وفات میں سخت اختلاف ہے۔واقدی کا قول ہے کہ شوال ۵۹ھ میں انتقال فرمایا اور حضرت ابو ہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ امام بخاری تاریخ کبیر میں ۵۹ ھلکھتے ہیں ۔بقول ابن حبان امام حسین کی شہادت کی خبر آنے کے بعد آخر ۶۱ھ میں وفات پائی۔ابراہیم حربی ۶۲ھ بتاتے ہیں ۔ مگر صحیح مسلم میں ہے کہ حارث بن عبد اللّٰہ بن اُبی اور عبد اللّٰہ بن صفوان حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اس لشکر کی بابت پوچھا جو زمین میں دھنس جائے گا۔یہ سوال اس وقت کیا گیا جب یزید بن معاویہ نے مسلم بن عقبہ کو لشکر اسلام کے ساتھ مدینہ کی طرف بھیجا تھا اور واقعہ حرہ پیش آیا تھاجو ۶۳ھ میں تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت ام سلمہ واقعہ حرہ تک زندہ تھیں ۔ (۲ )
________________________________
1 – بلا حصولِ مقصد۔
2 – شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ، المقصد الثانی ۔۔۔إلخ، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات ۔۔۔إلخ، ج۴، ص ۳۹۶،۴۰۳۔علمیہ