حضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہِ مصطفی علیہ التحیۃ والثناء میں حاضری:
پھرحضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے اونٹ کھولا اور اپنے گھر چل دیئے۔ گھر جاکر اونٹ باندھا اور جوتے پہن کر حضرتِ سیِّدَتُنااُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے گھرکی طرف چل دئیے، دروازہ کھٹکھٹایاتو حضرتِ سیِّدَتُنااُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے پوچھا:”کون ؟” تو سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اُٹھو اور دروازہ کھولو۔ یہ وہ ہے جس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کارسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم محبت کرتا ہے اور یہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔” حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کی :”میرے ماں باپ آپ (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) پر قربان! یہ کون ہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”یہ میرا بھائی ہے اور مجھے ساری مخلوق سے بڑھ کر پیارا ہے۔” حضرتِ سیِّدَتُنااُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :”میں اس تیزی سے اٹھی کہ چادر میں الجھنے لگی تھی۔میں نے دروازہ کھولا تودیکھا کہ حضرت سیِّدُنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! جب تک انہیں پتہ نہ چلا کہ میں اوٹ میں ہوگئی ہوں ، وہ اندر داخل نہ ہوئے۔ پھر حاضرِ خدمتِ اقدس ہوکر انہوں نے سلام عرض کیا اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جواب عنایت کیا پھر فرمایا: ”بیٹھو۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سامنے بیٹھ گئے اور زمین کُرَیدنے لگے گویاکوئی حاجت عرض کرنے میں حیا کر رہے ہوں۔
سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اے علی! کوئی کام ہے تو بتاؤ،ہمارے ہاں! تمہاری ہر حاجت پوری ہو گی۔” حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم نے عرض کی :”یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! میرے ماں باپ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پرقربان! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جانتے ہیں کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے اپنے چچا اورچچی فاطمہ بنت اسد سے لیا، میں اس وقت ایک ناسمجھ بچہ تھا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میری راہنمائی فرمائی،مجھے ادب سکھایا، مجھے شائستہ بنایا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھ پر ماں باپ سے بڑھ کر شفقت واحسان فرمایا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ذریعے مجھے ہدایت بخشی اور اس شرک سے بچایاجس میں میرے والدین مبتلا تھے(ان کی والدہ فاطمہ بنتِ اسدبعدمیں ایمان لے آئیں تھیں)۔ یا رسول اللہ (عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )!آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہی دنیا و آخرت میں میرا وسیلہ اور ذخیرہ ہیں، اور میں یہ پسند کرتاہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ذریعے
میری پشت پناہی اس طرح فرمائے کہ میرا بھی ایک گھر اور بیوی ہوجس میں چین حاصل کروں۔ یہی غرض لئے میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا ہوں، یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ! کیاآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنی لختِ جگرحضرتِ فاطمۃ الزہرا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عقد ِنکا ح میرے ساتھ فرما نا پسند فرمائیں گے؟۔”