حضرتِ عائشہ بنت اَبی بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا

حضرتِ عائشہ بنت اَبی بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا

ان کا نسب مرہ بن کعب میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے خاندان سے ملتا ہے۔بعثت کے چار برس بعد پیدا ہوئیں ۔ اپنے بھانجے عبد اللّٰہ بن زبیرکے تعلق سے اُم عبد اللّٰہ کنیت رکھتی تھیں ۔
چھ برس کی تھیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عقد نکاح میں آئیں ۔ پہلے جبیر بن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب تھیں ۔خولہ بنت حکیم آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ایماء سے ام رومان (والدۂ

عائشہ صدیقہ) کے پاس گئیں اور نکاح کا پیغام سنایا۔ام رومان نے رضا مندی ظاہر کی۔حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ گھر آئے تو ان سے تذکرہ کیا انہوں نے کہا کہ عائشہ تو رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بھائی کی بیٹی ہے، کیا یہ جائز ہے؟ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کہلا بھیجا کہ تم اسلام میں میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں یہ نکاح جائز ہے۔ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ام رومان سے کہا کہ ’’ مطعم بن عدی اپنے پوتے کے لئے خواستگاری کر چکا ہے، واللّٰہ ! ابوبکر نے کبھی وعدہ کے خلاف نہیں کیا۔ ‘‘ اس لئے وہ مطعم کے پاس گئے اور اس سے تذکرہ کیا۔ مطعم نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیوی نے حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے کہا کہ اگر ہم نے اس لڑکے کا نکاح تمہارے ہاں کردیا تو شاید تم اس کو صابی ( ۱) بنا لو گے اور اپنے دین میں داخل کرلو گے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہوہاں سے اٹھ آئے اور خولہ کے ہاتھ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ نکاح کے لئے تشریف لے آئیں ۔ چنانچہ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے (ماہ شوال ۱۰ نبوت میں ) حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکا نکاح کر دیا اور ہجرت کے پہلے سال ماہ شوال میں مدینہ منورہ میں نو سال کی عمر میں آپ کی رسم عروسی ادا کی گئی۔
آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال شریف کے وقت حضرت عائشہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی عمر مبارک اٹھارہ سال تھی۔انہوں نے چھیاسٹھ برس کی عمر میں ۵۷ھ میں انتقال فرمایا اور حسب وصیت رات کے وقت جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو مروان بن الحکم کی طرف سے اس وقت حاکم مدینہ تھے نماز جنازہ پڑھائی۔
آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّمیں سے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے زیادہ محبت تھی۔ان کو دوسری ازواج پر اور کئی باتوں میں فضیلت تھی۔ چنانچہ ان کے سوا کسی اور زوجہ کے والدین مہاجر نہ تھے۔ان کی براء ت اللّٰہ تعالٰی نے آسمان سے نازل فرمائی۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامان کی صورت ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس لائے اور عرض کیا کہ ان سے

شادی کر لیجئے۔ ان کے سوا کسی اور زوجہ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام کو نہیں دیکھا۔ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور یہ ایک برتن میں غسل فرمایا کرتے تھے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز پڑھا کرتے اور یہ سامنے لیٹی ہوتیں ۔ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر وحی نازل ہوتی اور آپ اور یہ ایک لحاف میں ہوتے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال شریف ان ہی کی گود میں اور ان ہی کی نوبت (۱ ) میں ہوا اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان ہی کے حجرے میں دفن ہوئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا عالمہ فصیحہ تھیں ۔حضرت موسیٰ بن طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ذکر کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے بڑھ کر فصیح نہیں پایا۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ صحابہ کرام کو کوئی ایسا مشکل مسئلہ پیش نہیں آیا کہ جس کا حل انہوں نے حضرت عائشہ کے پاس نہ پایا ہو۔ محمود بن لبید کا بیان ہے کہ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواج مطہرات کو بہت سی حدیثیں یاد تھیں مگر حضرت عائشہ و ام سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ان میں ممتاز تھیں ۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا حضرت عمر و عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کے عہد میں فتویٰ دیا کرتی تھیں یہاں تک کہ انتقال فرماگئیں ، یَرْحَمُہَا اللّٰہُ۔رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَصحاب میں سے اَکابر حضرت عمر و حضرت عثمان حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد حضرت صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکی خدمت میں کسی کو بھیج کر حدیثیں پوچھا کرتے تھے۔
آپ کثیرۃ الحدیث ( ۲) تھیں ۔دو ہزار دو سو دس حدیثیں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے مروی ہیں جن میں سے 174 پر شیخین کا اتفاق ہے اور 54 میں امام بخاری اور 28 میں امام مسلم منفرد ہیں ۔
آپ وقائع و اشعار عرب سے خوب واقف تھیں ۔حضرت عروہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے بڑھ کر کسی کو قرآن و فرائض و حلال و حرام و فقہ و شعر و طب و حدیث عرب و نسب کا عالم نہیں پایا۔
آپ زاہدہ اور سخی تھیں ۔ام الدرداء روایت کرتی ہیں کہ ایک روز حضرت عائشہ روزہ دار تھیں ان کے پاس ایک لاکھ درہم آئے۔انہوں نے وہ سب تقسیم کردئیے میں نے کہا : کیا آپ یوں نہ کرسکتی تھیں کہ ایک درہم بچالیتیں جس سے گوشت خرید کر روزہ افطار کرتیں ۔انہوں جواب دیا کہ اگر تو مجھے یاد دلا دیتی تو میں ایسا ہی کر لیتی۔ ( ۱)

________________________________
1 – شرح الزرقانی علی المواہب،المقصدالثانی۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی ذکرازواجہ الطاھرات ۔۔الخ،عائشۃ ام المؤمنین، ج۴، ص۳۸۱-۳۹۲ملخصاً۔علمیہ

Exit mobile version